نظم: مقدمہ – سیف الرحمان ہادی

نظم : مقدمہ

( پہلا منظر : بوجھ )

تیری عدالت میں برسوں پہلے

 مقدمہ جو ہوا تھا دائر 

ہماری اب تک سماعتوں میں

 تمہاری جھوٹی عدالتوں میں

 وہ گونجتا ہے ، وہ کہہ رہا ہے 

کہ لاشیں اپنی ، صدائیں اپنی

 اِدھر جو گم ہے اُدھر سنبھالو 

یا بوجھ اپنا فلک پہ ڈالو 

 

( دوسرا منظر : التجا )

 

وہ زخمی چہرے روتی آنکھیں

 جو منتظر ہیں کئی برس سے

کہ کوئی عادل ، کوئی بھی منصف

 عدیل بن کر زمیں پہ آئے 

خدا کو لائے مجھے بلائے 

گواہی مانگے گواہی دونگا

 

( تیسرا منظر : عیدی )

 

ہماری عیدیں بھی کیا عجب ہیں

 گھروں میں بیٹھے ہیں غم مناتے

اٹھائے اپنوں کے چند لاشے 

یہ سوچتے ہیں وہ ہم کو عیدی میں

 کتنی لاشیں عطا کریں گے 

خدا کے لوگوں خدا کے بندوں 

یہ لاشے کب تک تماشے کب تک 

 

( چوتھا منظر : منظر )

 

میں اپنی آنکھوں سے

 سارے منظر کو قید کرتا رہا ہوں تب سے

مقدمہ جب ہوا تھا دائر

وہ پیارا لہجہ جو چاہتا تھا 

خدا کے بندوں کی جاں بچائے 

وہ رو رہا ہے ، وہ منتظر ہے 

وہ کوزہ گر جو فضا کی مٹی سے

 دن بنائے وفا دکھائے

 وہ رو رہا ہے ، وہ منتظر ہے 

وہ پیاری بہنیں جو مدتوں سے

 خدا کو چیخیں سنا رہی ہیں 

وہ رو رہی ہیں ، وہ منتظر ہیں 

 

( پانچواں منظر : انصاف )

 

کوئی تو آئے ، کوئی بچائے

 میں چاہتا ہوں خدا بھی آئے

میں اپنے رب سے کروں گا شکوہ 

کہوں گا اُس سے اے میرے مولا 

ہمارے پیاروں کو لے کے آؤ 

ہمیں بچاؤ ، ہمیں ہنساؤ 

فلک جو وحشت سے کانپ اٹھے

 نہ ایسا منظر ہمیں دیکھاؤ 

ہمارے مابین بن کے منصف 

یا حشر برپا کرو خدارا 

یا ہم کو اپنی اماں میں لے لو 

 

( چھٹا منظر : آج کا میثم )

 

مری صدا دل میں گم ہوئی جو

تو میں نے یک دم زبان دیکھی

وہ ایک ٹکڑا جو میرے منہ میں 

کئی گھروں کا تھا اک سہارا

یقین سارا پلٹ چکا تھا

 اُمید بھی ساری ہٹ چکی تھی

 زبان منہ میں ہی کٹ چکی تھی 

 

( ساتواں منظر : خدا کا انصاف )

 

مگر لہو چیخنے لگا کہ

یہ سارے قاتل یہ سارے مجرم

سزا کے حقدار ہیں یقینا 

خدا نے دیکھا جو سارا منظر 

اسے مسیحا کی یاد آئی 

وہ چھوٹا بچہ صفائی دینے میں جو مگن تھا 

مگر وہ انساں تھا یہ لہو ہے

خدا یہ سن کر خموش رہتا ، تو کیسے رہتا 

مقدمے کا گواہ میں تھا

 مقدمہ اب سنبھل چکا تھا

خدا کا لہجہ بدل چکا تھا ۔

سیف الرحمان ہادی ۔