کالم نگار: انضمام معراج
موجودہ دور میں طلبہ سیاست کی اہمیت و ضرورت کا مکمل ادراک حاصل کرنے کے لیے ہمارے لیے موجودہ سماج میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنا بہت لازمی ہے۔ کیونکہ کسی بھی سماج کی بنت کاری کی سمجھ اور اس میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی سوجھ بوجھ سے ہی اس سماج کے مسائل کا مربوط حل نکالنا ممکن ہوتا ہے۔
اس کے لیے ہمیں سمجھنا ہوگا کہ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے تمام ممالک میں اب دیسی سماج کا فیبرک ادھیڑ رہا ہے۔ دیسی سماج اب اپنی پہلے جیسی حالت میں ہرگز نہیں ہے۔کچھ پاپولر قوتیں ضرور ایسے سماجوں میں موجود ہیں جو کافی پرزور ہے مگر جدید دور کی ضرورتوں کے پیش نظر جو ناگزیر سماجی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں؛ انھیں نظر انداز کرنا ان رجعت پسند قوتوں کے لیے ہرگز آسان نظر نہیں آرہا ہے۔اسکی حالیہ مثال پاکستان میں بائیں بازو کی جدوجہد سے طلبہ سیاست کی واپسی ہے۔جس نے ملک بھر میں طلبہ کو پھر سے ایک سیاسی قوت کے طور پہ زندہ کردیا ہے۔
اس وقت دیسی سماج عبوری دور سے گزر رہے ہیں۔حالیہ سماجی انتشار اسی کا نتیجہ ہے،جس طرح کے رویے اور واقعات حالیہ دور میں رونما ہورہے ہیں چاہے وہ سیاسی نوعیت کے ہیں، سماجی یا معاشی ان سب کا تعلق اس انتشار سے ہے جو اس عبوری دور میں برپا ہوتا ہے۔اس سٹیج پہ اسی طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔اس کی مثال یورپ کا ٹرانزیشن پیریڈ ہے۔یورپ میں سماجی بدلاؤ اور سماجی ڈھانچے میں تبدیلی کا دور ایک ہولناک داستان ہے۔یہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے، سماجی قوتیں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار آجاتی ہیں، جن کے ردعمل کی نفسیات کا شکار ہونے سے سماج انتشار کی حالت میں آجاتا ہے۔
آپ دیکھیے کہ آج سے پندرہ بیس سال پہلے آپ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ پاکستان میں ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ جیسا کوئی قانون بن سکتا ہے یا طلبہ دوبارہ متحد ہوکر اپنے حق کے لیے کھڑے ہوسکتے ہیں۔خاندان کا ادارہ اپنی پہلے جیسی حالت میں نہیں رہا،آپکا نوجوان موروثی سیاست کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے،خواتین کے لیے بلاشبہ اب بھی مکمل آزادی میسر نہیں ہے مگر آج ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والوں میں خواتین کی شرح زیادہ ہے جبکہ ملک کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں خواتین اب کلیدی کردار ادا کررہی ہیں۔مذہبی جنونیت بلاشبہ اب بھی موجود ہے مگر اب ایک بڑا طبقہ اس رویے کو قابل قبول ماننے کو تیار نہیں ہے۔نوجوان نسل ایسے رویوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے،ملک بھر میں سٹیٹس کو کے خلاف نوجوانوں کی جانب سے اس قدر پرزور آوازیں بلند ہونا سماجی رویوں میں ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔
اگر اب طلبہ آگے نا بڑھے تو یہ خلا دوسری قوتیں لے لیں گی، اور ماضی میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے، جب بھی ترقی پسند قوتوں نے کوئی خلا چھوڑا ہے تو انکی جگہ ریاستی چھتری تلے پنپنے والی رجعت پسند قوتوں نے اس خلا کو حاصل کرلیا ہے۔
یہ سب تبدیلیاں مختلف سماجی رویے پیدا کرنے کا موجب ہیں، ایسے سماجی رویے جن سے دیسی سماج کی بنیادیں ہل رہی ہیں۔دیسی سماج میں جو عورت کا مقام تھا وہ اب بدل چکا۔اسکی بہیتری وجوہات ہیں جن کو کسی اور کالم میں موضوع بحث بنایا جائے گا۔ان سب مثالوں اور سماج میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں یہ ادراک حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں طلبہ سیاست کی بنیادیں کیا ہونی چاہیے۔
چونکہ جدید دور میں طلبہ ایک اہم سیاسی قوت کی حیثیت رکھتے ہیں، جنھوں نے تاریخ میں ہمیشہ فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔اوپر کی گئی بحث سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا سماج ایک بدلاؤ (ٹرانزیشن پیریڈ) سے گزر رہا ہے۔اور ماضی میں ایسی صورتحال میں طلبہ نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔سرد جنگ کے دوران مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں اٹھنے والی طلبہ تحریک اسکی بہترین مثال ہے، اس کے علاوہ پاکتسان میں 1968 کی طلبہ تحریک جس نے ملک کے شہریوں کو بنیادی حقوق دلوانے میں اہم کردار ادا کیا، امریکا میں بلیک رائٹس موومنٹ اور ایسی بے شمار مثالیں تاریخ میں موجود ہے۔
اس وقت ملک بھر میں طلبہ سیاست پہ بات ہورہی ہے، مگر اس ساری بحث میں جس سوال کو سب سے بڑھ کر موضوع بحث بنانے کی ضرورت ہے وہ سوال طلبہ سیاست کا موجودہ دور میں کردار ہے۔
پاکستان میں جب بھی استحصالی قوتوں نے زور پکڑا ہے تو اسکے خلاف مزاحمت میں طلبہ نے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے فیصلہ کن مزاحمت کی ہے۔آج بھی ہمارے سماج میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہم سے اسی قسم کے کردار کی متقاضی ہیں۔مگر اس بار جو کردار ادا کرنے کی طلبہ کو ضرورت ہے وہ ماضی سے مختلف، مشکل اور زیادہ دیرپا کردار ہے۔ اس بار سماج طلبہ سے ایک متبادل سیاسی و معاشی قوت کے کردار کا تقاضہ کرتا ہے۔
کیونکہ اس وقت لوگ تنگ ہیں اس نظام سے، ان میں سامراج کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ Post colonial system کو لوگ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ متبادل دیکھنا چاہتے ہیں جو کہ عوامی ہو، انکے حقوق کی بات کرتا ہو۔انکے حقوق کا تحفظ کرتا ہو۔طلبہ کو وہ قوت بننا ہے۔اس بار سماج میں برپا ہونے والی تبدیلیاں اس بات کی متقاضی ہیں کہ طلبہ عام لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں،غریب، محنت کش طبقے کی بات کرے،رجعت پسندی کو جڑوں سے ختم کرنا،سماجی عدم برابری، طلبہ کے بنیادی حقوق کے حصول اور طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہد کو اپنا نسب العین بنائے۔
اگر اب طلبہ آگے نا بڑھے تو یہ خلا دوسری قوتیں لے لیں گی، اور ماضی میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے، جب بھی ترقی پسند قوتوں نے کوئی خلا چھوڑا ہے تو انکی جگہ ریاستی چھتری تلے پنپنے والی رجعت پسند قوتوں نے اس خلا کو حاصل کرلیا ہے۔جمیعت اسلامی جیسی طلبہ قوتیں اور تحریک لبیک و پاکستان تحریک انصاف جیسی قوتیں اسی کی مثالیں ہیں۔
ہمیں سمجھنا ہے کہ تاریخ میں جب بھی ایسے مواقعے آئے ہیں جب عام لوگ سسٹم سے تنگ آگئے ہوں تو طلبہ کا طبقہ سب سے پہلے آگے بڑھا ہے، آگے نکلا ہے۔ اور فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔