مذہب اور سیاست

سیاسی بحث و مباحثہ میں ہمیشہ سے تنقید اور تنازعات کا شکار رہنے والا عنوان “مذہب اور سیاست” رہا ہے ۔میں یہ بات واضح کرتا چلو مذہب بحثیت خود نہایت اچھی اور قابل عمل شے ہے اسطرح سیاسیات کا علم اور عمل بھی ایک عمدہ چیز ہے۔ سیاسی شعور رکھنے والا ہر بندہ دائیں اور بائیں بازو کی تعریف سے مکمل طور پر با شعور ہے۔اسی طرح ان کی تعریفیں بھی ملک در ملک کی حرکیات کے مطابق بدل جاتی ہیں۔

یہاں پر قابل غور بات ،اس دنیا میں جتنی بھی اخلاقیات ،اعلی اقدار ،پیار ،محبت ،انس اور اعلی اخلاقی ترجیحات ہیں وہ مذہب سے ہی وابستہ ہیں ۔لیکن آپ کو اس بات سے با شعور ہونا پڑے گا کہ کہاں پر سیاست دان ، ملاں اور جنرنیل مذہب کی آڑ میں آپ کے جذبات کے ساتھ کھیلتے ہیں اور عام عوام کی کم علمی کی وجہ سے ان کا استحصال کرتے ہیں اور معاشرے کو فرسودہ اور مذہبی انتہا پسند بنادیتے ہیں۔ ایران،لبیا،عراق اور شام وہاں پر کیا کیا ظلم نہیں ہوئے مسلمانوں نے مسلمانوں کی جانیں لیں۔
ماضی کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں کہ کس طرح انگریزوں نے مذہب کو استعمال کرکے دو قوموں کو جن کے باپ دادا ایک تھے الگ کر دیا اور اس کا تفصیلی ذکر میں اپنی ایک تحریر میں پہلے بھی کرچکا ہوں۔اسی طرح انگریزوں نے کس طرح مذہبی ملاں کو خرید کر KPK کی عوام کو تقسیم سے پہلے روسی انقلاب کے خلاف بھٹرکایا۔
اسی طرح آپ مرد مومن مرد حق ضیاالحق کے دور میں جہاد افغانستان کی طرف آجائیں کس طرح اس جنگ کو جہاد کا نام دیا گیا اور سینکڑوں لوگوں جن میں مد رسوں میں پڑھنے والے بچے بھی شامل ہیں کو شہید کروایا گیا ۔حتیٰ کہ مدرسوں کے بچوں کا برین واش کیا گیااور ان کی آنے والی نسلوں پر ظلم کیا گیا ۔اور امریکی ڈالروں کی خاطر مذہب کو استعمال ہونے دیا گیا ۔کہتے ہیں پاکستان کی ہر برائی کا تعلق ضیا صاحب سے ملتا ہے چاہے پھر وہ منشیات ہو یا بندوق کلچر۔ جب کہ جنرل پرویزمشرف کے دور کی دہشت گردی بھی ڈھکی چھپی نہیں ۔رضوی صاحب کے دھرنے بھی آپ کے سامنے ہیں اور فوجی نوٹ بھی (کس طر ح ایک جماعت کا ووٹ بینک مضبوط اور مخالف کا لمزور کر نے کے لیے مذہب کی آڑ لی گی اور بعد میں معاملات اس کے الٹ ہوئے اور آج بھی فرانسیسی سفیر وہی ہے اور رضوی صاحب کی وفات کے بعد ان کے صاحب زادے کو جیل سے رہا کروانے کے لیے ۲۰لاشیں گروائی گئی)۔موجودہ دور میں ، مین سٹریم میڈیا پر بھی عمران خان کے لانگ مارچ اور اس پر مذہب کا نہایت غلط استعمال (جہاد، امر بالمعروف اورشرک کے فتوے )آپ کے سامنے ہے۔
جیسا کہ منٹو صاحب لکھتے ہیں
“سیاست اور مذہب کی لاش ہمارے نامور لیڈر اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور سیدھے سادے لوگوں کو جو ہر بات مان لینے کے عادی ہوتے ہیں یہ کہتے پھر تے ہیں کہ وہ اس لاش کو از سر نو زندگی بخش رہے ہیں”
جب عوام ان حالات سے گزرتی ہے تو ان کی تربیت میں انتہا پسندی آتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں مشال خان ، سری لنکن شہری اور بہت سوں کا مذہب کے نام پر نہایت بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔جبکہ علماء کئی فتوے دے چکے ہیں کہ قانون کو ہاُتھ میں لینے والا دہشت گرد ہے۔
دیکھا جائے سعودیہ جیسی ایک مذہبی ریاست کو ۱۰۰ سال اسی چیز کے فیصلے پر لگ گئے کہ عورت کو ڈرائیورنگ لائیسنس دینا چاہیے کہ نہیں۔کہنے کا مطلب جب جب زمانہ جددت کی طرف جاتا ہے مسائل جنم لیتے ہیں۔
مذہب کا سیاست میں آنا مسئلہ نہیں ہے لیکن مذہب جب بھی سیاست میں آتا ہے تو معاشرے میں چھپی کالی بھیٹریں اس کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں ۔ جب کہ غلط استعمال ہونے کے نقصانات نہایت بھیانک اور خون ریز ہوتے ہیں۔ لہذا ریاست کو جمہوریت ،انصاف اور بنیادی انسانی حقوق پر مبنی ہونا چاہیے اور جو اس کے مفادات میں درست اور مثبت فیصلے ہیں لینے چاہئیں۔

بقلم:عبدالرحمن رحمانی طلب علم جامعہ پنجاب ،لاہور