لاہور: طلبہ احتجاج کے بعد سپیرئیر یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ کے مطالبات تسلیم کرلئے ۔


گزشتہ روز مورخہ 15 مئی کو لاہور میں سوپیریر یونیورسٹی رائیونڈ کیمپس کے طلبہ نے نئی فیس پالیسی کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا جس کے نتیجے میں آخرکار انتظامیہ نے طلبہ کے مطالبات تسلیم کر لیے۔

تفصیلات کے مطابق حالیہ دنوں میں سوپیریر یونیورسٹی کی انتظامیہ نے سیمسٹر امتحانات کے دوران فیسوں سے متعلق نئی پالیسی لاگو کر دی تھی جس کے تحت طلبہ کو آئندہ سیمسٹر کی فیس ایڈوانس جمع کرنے کا کہا گیا تھا۔ فیس جمع نہ کروانے کی صورت میں طلبہ کو رول نمبر سلپ نہ دینے اور امتحانات میں نہ بیٹھنے دینے جیسے ردعمل کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد متاثرہ طلبہ کی جانب سے وقتاً فوقتاً احتجاج کیا گیا مگر ان کے مطالبات سننے کے بجائے یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کو ہراساں کرنے کی خبریں سامنے آتی رہیں ہیں۔ خیال رہے کہ طلبہ نے نئی فیس پالیسی کو ظالمانہ قرار دے کر واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ متاثرہ طلبہ کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے احتجاج کرنے والے طلبہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔ بعد ازاں پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹیو کی کال پر گزشتہ روز زبردست احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا جو بعد ازاں دھرنے کی صورت اختیار کر گیا۔ اطلاعات کے مطابق احتجاجی مظاہرے کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے طلبہ پر لاٹھی چارج کیا مگر طلبہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے کوشاں رہے۔ طلبہ کی انتھک محنت کے بعد بالآخر یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے نئی فیس پالیسی واپس لے لی۔

اس موقع پر پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹیو کے مرکزی ترجمان علی عبداللہ خان نے طلبہ سے کہا کہ یہ چیز سوپیریر یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی بار ہوئی ہے کہ طلبہ نے منظم اور اگھٹا ہو کر یونیورسٹی انتظامیہ کو اپنے مطالبات منوانے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ آج کی اس جیت میں ہمارے لیے ایک سبق ہے وہ یہ کہ جب ہم انفرادی طور پر اپنی درخواستیں لیکر انتظامیہ کے پاس جاتے تھے تو ہمیں یہ بھیڑوں اور بکریوں کی طرح ہانگتے تھے، ہمیں چوکیدار سے لیکر استاد تک ہر بندہ زلیل کرتا تھا، کیمپس کے اندر گھستے ہی ہماری زلالت شروع ہو جاتی تھی لیکن آج ہم نے منظم ہو کر بتا دیا کہ اگر کوئی آر۔او ہے تو وہ بھی ہم سے عزت سے بات کرے گا اگر کوئی لیکچرار ہے تو وہ بھی ہم سے عزت سے بات کرے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم طلبہ فیسیں دے کر تعلیم حاصل کرتے ہیں، ہم انتظامیہ سے عزت اور احترام چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے بعد سے ہمیں مزید منظم ہونا ہے، آج ہم نے منظم ہو کر سوپیریر یونیورسٹی کی انتظامیہ سے اپنے مطالبات تسلیم کروائے ہیں لیکن کل کو ہمیں اتنا منظم ہونا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ ہمارے غور میں لائے بغیر ہمارے لیے کوئی فیصلہ نہ لے سکے، کسی تعلیمی ادارے میں طلبہ کے غور میں لائے بغیر طلبہ کے متعلق فیصلہ سازی نہ کی جاسکے، لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوجی آمر ضیاء الحق نے طلبہ یونینز پر یہ کہہ کر پابندی عائد کر دی کہ یہ کیمپس میں انتشار پیدا کرتی ہیں لیکن آج ہم نے یہ بیانیہ جھوٹا ثابت کر دیا ہے، ہم طلبہ پر امن ہیں، ہم پر پنجاب پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کیا گیا، ہمیں مکے اور لاتیں ماری گئیں لیکن ہم نے اس کے باوجود جواباً کچھ نہیں کیا حتی کہ کسی املاک تک کو نقصان نہیں پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم طلبہ کو خود کو اتنا منظم کرنا ہوگا کہ ایک دوسرے کے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کر سکیں اور کل کو اس ملک کے سیاسی نظام کی تبدیل کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں۔