سچ کے بعد کا معاشرہ

سچ کے بعد کی اصطلاح سب سے پہلے ایک سربین-امریکن ڈرامہ نگار اسٹیو ٹیسک نے 1992 میں اپنی ایک تحریر میں استعمال کی۔ اُس کے بعد ایک امریکن مصنف رالف کیز نے 2004 میں اپنے کتاب کا عنوان ”سچ کے بعد کا دور“ رکھا تھا۔ اُس کے بعد اِس خیال کو کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی۔ لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے 2016 میں امریکی صدارتی انتخابات اور برطانیہ میں یورپی یونیں سے علیحدگی کے ریفرنڈم کے بعد سچ کے بعد کی سیاست  یا سچ کے بعد کا معاشرہ کی اصطلاح عام ہوگئ۔ اِسی سال آکسفورڈ ڈکشنری نے پوسٹ ٹُرتھ کو 2016 کا عالمی لفظ قرار دیا۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق پوسٹ ٹُرتھ کا مطلب ہے: ”ایسا دور یا معاشرہ یا سیاست یا حالات، جس میں عوامی راۓ کو پیدا کرنے یا اُس کو ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے ٹھوس حقائق کے بجاۓ جذباتی یا ذاتی راۓ کا اثر زیادہ ہو“۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ سچ کو چھپا کر جھوٹ کو ہر سطح پہ بلند کیا جاۓ۔ مثال کے طور پہ 2016 کی امریکی صدارتی انتخابات کے دوران یا اُس کے بعد صدر ٹرمپ بس اِس بات پہ زور دے رہے تھے کہ آئیں! امریکا کو ایک مرتبہ پھر عظیم بنائیں، یا میکسیکو اور امریکا کے بیچ ایک دیوار بنائیں تاکہ میکسیکو کے لوگ امریکا نہ آسکیں، کیوں کہ وہ امریکیوں کی نوکریاں کھا رہے ہیں یا پھر اِسی قسم کے کئی اور جذباتی بیانئیے۔ ٹھیک اِسی طرح 2016 میں برطانیہ میں ہونے والے بریگزٹ ریفرنڈم کی مہم کے دوران یہ دعویٰ کی گئی کہ برطانیہ کو یورپی یونیں کی میمبرشپ کا ہر ہفتے 350 ملین پائونڈ خرچ آتا ہے، جو کہ بریگزٹ کے بعد نیشنل ہیلتھ سروس پہ لگایا جاۓ گا۔

اِس دعویٰ کو برطانیہ کے شماریات کے ادارے نے گمراہ کن قرار دیا۔ ٹھیک اِس طرح پاکستان میں پچھلے عام انتخابات کے دوران تحریکِ انصاف ہر وقت یہی بول رہی تھی کہ 5 سال کے اندر ایک کروڑ نوکریاں دینے کے ساتھ پاکستان میں ہر روز ہونے والی 400 ارب کی کرپشن کو روک کر ملک کا خزانہ بھر دیں گے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں برطانیہ کی طرح شماریات کا ایسا کوئی ادارہ ہی نہیں ہے جو یہ بتاۓ کہ یہ سب کچھ نہ صرف عوام کو گمراہ کرنے کے لیے یا جھوٹ پر مبنی ہے۔ اس لیے پاکستان میں جھوٹ کو ایک اور نام دیا جاتا ہے جسے ہم یو-ٹرن (U-Turn) بولتے ہیں۔ اور ایک صاحب تو یو-ٹرن کے نام سے مشہور بھی ہیں۔

اِس طرح سے حقائق چھُپانے کے ساتھ پوسٹ ٹُرتھ دور کا ایک اہم پہلو جھوٹی خبریں کا تیزی سے بڑھتا ہوا رجحان ہے، جس سے انتہائی سنگین مسائل پیدا ہورہے ہیں، جن میں ماحولیاتی تبدیلی اور بیماریوں سے بچاٶ کی ویکسین سرفہرست ہیں۔ ان اہم مسائل کے خلاف تمام منظم طریقے سے جھوٹی خبریں اور غیرسائنسی معلومات پھیلائی جاتی ہے۔ یہ مسائل صرف کسی ایک ملک یا قوم کے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ہیں۔

یہ ماحولیاتی تبدیلی تو اُن سرمایہ دار ممالک کی وجہ سے ہے، جن کی دن رات چلنے والی فیکٹریز کے دونہے اور دوسری آلودگی، جس نے اوزون کی سطح کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ اِن ممالک کے سرمایہ دارانہ مفاد ہی ہیں، جن کی وجہ سے دنیا میں آج یہ مسائل برپا ہوئے ہیں۔ جھوٹی معلومات کی تیزی سے پھیلاٶ کے سبب سائنسی معلومات کو تکراری بنا کر عام لوگوں کا دھیان اِس سے ہٹایا جا رہا ہے۔ دنیا کے بہت سے سیاسی رہنما ماحولياتی مسئلے اور ویکسین کے مثبت اثرات کو نہیں مانتے یا اُن کو اہمیت نہیں دیتے، نتیجے میں ماحوليات کے مسئلے پہ عالمی سطح پر ٹھوس اقدامات اُٹھانے کے لیے اتفاق راۓ جوڑنے میں کافی مشکلات درپیش ہیں۔

ٹھیک اسی طرح ویکسین کی مخالفت اور اُس کے بارے میں غلط معلومات کی وجہ سے کافی خطرناک اور مہلک بیماریوں کا خطرہ درپيش ہے۔ ستمبر 2019 میں سائوتھ پیسیفک کے ایک ملک سموع  میں خسرہ  کی بیماری پھیلی تھی، جس میں 5424 لوگ شکار ہوۓ اور اُن میں سے 77 اموات ہوئیں۔ خسرہ کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی گئی کہ وہاں کے لوگ اپنے بچوں کو خسرہ سے بچنے کے ٹیکے نہیں لگواتے۔ یہی مسئلہ پاکستان میں پولیو کے ٹیکوں کا ہے، پوری دنیا میں پاکستان اور افغانستان دو ایسے ملک ہیں، جو اب بھی پولیو سے پاک نہیں ہیں۔

پاکستان میں پولیو کے پھیلنے کے اور بھی کئی وجوہات ہیں، جیسا کہ بدنظمی، کرپشن پر سب سے اہم وجہ غلط معلومات کا پھیلاٶ ہے۔ جھوٹ کے تیزی سے پھیلنے اور لوگوں کا اُس پر آنکھ بند کرکے یقین کرنے پر سائنسدان، نفسیات کے ماہر اور فلسفی بھی پریشان ہیں کہ جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے، تو وہاں لوگ ایسی نقصانکار معلومات کو کیسے مان سکتے ہیں۔ کچھ اسکالرز مثلن سویڈن کے مشہور فزیشن ہینس رزلنگ جو ایک مشہو کتاب کے مصنف ہیں اور ایک کینیڈین-امریکن سائکولوجسٹ اسٹیو پنکر  جن کا خیال ہے کہ لوگوں میں صحيح معلومات کی کمی ہے یا حقیقت کے بارے میں معلومات کی کمی کے ساتھ تنقیدی سوچ کی مہارت یا صلاحیت نہیں ہے، اس لیے لوگ جھوٹی خبروں کو صحيح مانتے ہیں اور اس کے لیے لوگوں کے اندر سائنسی بنیادوں پہ ثبوتوں کے ذریعے معلومات کے ساتھ تنقیدی سوچ کی صلاحیت بھی پیدا کرنی چاہیے۔ 

کچھ اسکالرز کا ماننا ہے کہ جھوٹی معلومات یا خبروں کا مسئلہ بہت پرانہ ہے جو اب سوشل میڈیا کے ذریعے بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک بہت ہی خطرناک رجحان ہے۔

مثال طور ایک بہت پرانہ قصہ ہے کہ ایک گاٶں میں ایک لڑکا اخباریں فروخت کرتا تھا، اگر کسی دن اُس سے کوئی اخباریں نہیں خریدتا تو وہ گاٶں کے پاس والے ڈیم پہ جاتا اور زور سے چلاتا کہ ڈیم ٹوٹ گیا ہے اور جب لوگ ڈیم کے پاس میں جمع ہوجاتے تو اُن سے اخباریں خریدنے کے لیے بولتا کیوں کہ ڈیم تو ٹوٹا ہوا ہوتا ہی نہیں تھا اور پھر کئی لوگ اُسے بہت کچھ سناتے اور کچھ لوگ اخبار خریدتے۔ اُس لڑکے نے تین چار بار ایسا کیا، لیکن ایک دن سچ میں ڈیم ٹوٹ گیا اور وہ لڑکا چلاتا رہا کہ ڈیم ٹوٹ گیا ہے پر کسی نے اُس کی بات کا یقیں نہیں کیا کیوں کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اور نتیجہ یہ نکلا کہ اُس سیلاب کی وجہ سے وہ گاٶں ڈوب گیا۔ جھوٹی خبروں کی تیزی سے پھیلاٶ کی وجہ سے لوگ آج کل سچ کی کوئی خاص پرواہ نہیں کرتے اور سچ کے سوا تو کوئی معاشرہ چل ہی نہیں سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا پہ فیسبوک جھوٹ پھیلانے میں سب سے پہلے نمبر پہ ہے، اب اس میں فیسبوک کا تو کوئی قصور نہیں ہے، کیوں کہ یہ تو ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم فیسبوک یا دوسرے پلیٹ فارمز پہ کیا لکھتے ہیں یا کیا پھیلاتے ہیں یا پھر کسے پسند یا ناپسند کرتے ہیں۔ ہم سب ہر روز کئی گھنٹوں تک فیسبوک استعمال کرتے ہیں۔

اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے اندر تنقیدی سوچ یا تجزیے کی صلاحیت پیدا کریں تاکہ صحيح اور غلط معلومات میں فرق کرسکیں۔ تنقیدی تجزیے کےلیے حقیقت ، دعوی ، اور ذاتی راۓ میں فرق کرنا انتہائی اہم ہے۔ مثال کسی خبر کو دیکھ کر اُس پہ غور کرنا چاہیے کہ یہ خبر یا معلومات ٹھوس حقائق، دعوی یا کسی شخص کی ذاتی راۓ ہے۔ آج کل یورپ اور امریکا میں اسکولز، کالیجز اور یونیورسٹیز میں تنقیدی سوچ  ایک مضمون کے طور پہ پڑھایا جاتا ہے تا کہ جھوٹی خبروں جیسے رجحانات پہ قابو پایا جاسکے۔

اور اسی چیز سے بچنے کےلیے ہمیں چاہیے کہ اپنے آپ کے ساتھ اپنی آنے والی نسل میں بھی سچ کا ساتھ دینے کی صلاحیت پیدا کریں۔ یہ ہے تنقیدی سوچ اور اِس کا پہلہ نقطا ہے سوال کرنا اور ہم جیسے معاشروں میں سوال کرنے والوں کی ہمت افزائی نہیں کی جاتی لیکن پھر بھی ہمیں اپنے معاشرے کے بقا کے لیے سوال اُٹھانا پڑے گا۔

سنجئہ کمار

شعبہ بین الاقوامی تعلقات، وفاقی اردو یونیورسٹی، کراچی۔