آن لائن کلاسز اور طلبہ کے مسائل

آن لائن کلاسز اور طلبہ کے مسائل

ڈاکٹر اصغردشتی

کورونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی بندش سے سب سے زیادہ نقصان طلبہ کا ہورہا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) نے یونیورسٹیوں کوآن لائن کلاسز لینے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں طبقاتی عدم برابری اپنی انتہا پر ہو، جہاں حکومتیں پانی، بجلی، گیس اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی اپنے شہریوں کو نہیں دے سکیں وہاں لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ سے محروم طلبہ آن لائن کلاسیں کیسے لیں گے؟ کیا پاکستان کے دور دراز شہروں اور دیہاتی علاقوں میں انٹرنیٹ اور بجلی کی سہولت ہے؟ ورلڈ بینک فنڈڈ HEC نے آن لائن کلاسزکا فیصلہ کرنے سے پہلے ان باتوں کو کیوں نہیں سوچا؟ کیا HEC کا یہ فیصلہ یونیورسٹیوں کی خودمختاری کے خلاف نہیں ہے؟ آن لائن کلاسز کا فیصلہ کرنے سے پہلے کیا طلبہ کے ساتھ کوئی مشاورت کی گئی؟ کیا یونیورسٹیوں نے HEC کے ان فیصلوں پر عملدرآمد کرنے سے پہلے طلبہ کواعتماد میں لیا؟ کیا طلبہ کی پریشانیوں اور تحفظات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی؟

بدقسمتی سے پاکستان میں طلبہ یونین پر پابندی عائد ہے جس کی وجہ سے طلبہ کی نمائندگی کسی بھی فورم پر نہیں ہے۔ کورونا وائرس نے ریاست کی تعلیمی پالیسی کو بے نقاب کردیا ہے۔ تمام لوگوں کو یہ صاف نظر آرہا ہے کہ پچھلے 72 برسوں میں ریاست اور حکومتوں کی جانب سے تعلیم پر کتنا خرچ کیا گیا ہے اور تعلیم کے شعبہ کو کتنی بری طرح سے نظرانداز کیا گیا ہے۔ آن لائن کلاسز لینے کے احکامات جاری کرنے والے HEC کے تعلیمی بیوروکریٹس جو اپنے تئیں ارسطو اور سقراط بنے پھرتے ہیں کو یہ تک پتا نہیں ہے کہ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں G4 انٹرنیٹ سروس پائی ہی نہیں جاتی۔ HEC کے بزرجمہر اپنی ایلیٹ عینکوں سے صرف اسلام آباد، کراچی یا لاہور کے مخصوص اربن ایریاز اور پوش علاقوں کو ہی پورا پاکستان سمجھ بیٹھے ہیں۔

واضح رہے کہ کراچی، اسلام آباد اور لاہور جیسے بڑے شہروں کے اندر بھی بہت سے گاؤں، دیہات، مضافاتی علاقے اور کچی آبادیاں پائی جاتی ہیں جہاں اکیسویں صدی میں بھی بجلی، گیس اور پانی نہیں پایا جاتا۔ تو پھر سوچیے کہ بلوچستان، سندھ کے دیہی علاقے، سابق فاٹا، گلگت بلتستان اور جنوبی پنجاب کا کیا حال ہوگا؟ ایک یا دو کمرے کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والے غریب طلبہ کیا آن لائن کلاسز لیتے وقت اپنے تمام اہل خانہ کو گھروں سے باہر نکال سکتے ہیں؟ کیا تنگ و تاریک گھروں میں بڑے خاندانوں اور بچوں کی موجودگی میں خاموشی اور یکسوئی کے ساتھ آن لائن کلاسز لی جاسکتی ہیں؟

اگر صرف کراچی کی ہی مثال لے لیں تو کراچی کے مختلف علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کے اوقات مختلف ہیں تو کیا کراچی کے طلبہ بیک وقت آن لائن کلاسز لے پائیں گے؟ یہ تمام باتیں HEC کی کوتاہ بینی، فکری بانجھ پن اور علمی دیوالیہ پن کی نشانیاں ہیں۔ برائے مہربانی ڈی۔ایچ۔ایز، بحریہ ٹاؤنز اور ایلیٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز کو پورا پاکستان سمجھنا بند کردیا جائے۔ یہاں کے مکین بہت کم پاکستان کی بدقسمت یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ طبقہ اعلیٰ کے ان افراد کی اکثریت اپنے دولت کے بل بوتے پر امریکی، برطانوی اور یورپی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرتی ہے۔ موجودہ حکومت صرف سرمایہ داروں کے بارے میں سوچ رہی ہے اور انہیں مطمئن کررہی ہے جبکہ حکومت کو غریب طلبہ کی کوئی فکر نہیں ہے۔ پارلیمنٹ صرف سرمایہ داروں کے مفادات کے تحفظ تک محدود ہے۔

نام نہاد عوامی نمائندے اور سیاستدان اپنے انویسٹر اور فنانسر (صنعتکار اور تاجر طبقہ) کی ترجمانی کررہے ہیں۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق موجودہ حکومت لاک ڈاؤن میں ایکسپورٹ سیکٹر، کنسٹرکشن انڈسٹریز، گارمنٹس، لیدر، ایگریکلچر اور دیگر کاروبار کو دو ٹریلین (بیس کھرب) روپے امداد دے چکی ہے لیکن تعلیم کے شعبہ میں کچھ نہیں کررہی۔ موجودہ حکومت کی ترجیح صرف سرمایہ داروں کو لاک ڈاؤن کے نقصان سے بچانا ہے۔ ان کے کاروبار کو بچانا ہے جبکہ تعلیم یا صحت کا شعبہ ان کی ترجیح نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت یونیورسٹیوں کو جلد از جلد ایمرجنسی فنڈ مہیا کرے اور یونیورسٹیوں کے لیے مالیاتی پیکیج کا اعلان کرے۔

پاکستان بھر کے یونیورسٹی طلبہ کو مفت لیپ ٹاپ مہیا کیے جائیں ۔ پورے پاکستان میں فورجی انٹرنیٹ کی سہولت پہنچا ئی جائے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام طلبہ کی سمسٹر فیس معاف کی جائے۔ جب تک یہ تمام سہولیات مہیا نہیں کی جاتی تب تک سمسٹر بریک جاری رکھا جائے۔ بہرحال جب آن لائن کلاسز کی دھوپ پڑے گی تو اس کی تپش سے طلبہ مزاحمت خود ہی جنم لے گی اور پھر خود ہی سایہ ڈھونڈا جائے گا۔ آن لائن کلاسز پر عملدرآمد سے اس کا بھونڈا پن اپنے آپ ظاہر ہو جائے گا اور تنقید کے نئے پہلو اور نئے مباحث جنم لیں گے۔ اس سے آن لائن کلاسز کی حمایت کرنے والوں کی خام خیالی پر مبنی رائے بھی تبدیل ہوجائے گی جو ہجوم کی نفسیات (Crowd Behavior) کے تحت غیر شعوری طور پر اپنی ذاتی رائے کو نظرانداز کر کے ہاں میں ہاں ملانے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *