رپورٹ: عمار شہزاد
مورخہ چھ اگست کو فیڈرل اردو یونیورسٹی کے طالب علم احمد فلپوٹو کو سچل گوٹھ کے علاقے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سول کپڑوں اور پولیس کی وردی میں ملبوث افراد نے جبری طور پر اٹھایا اور نامعلوم جگہ پر لے گئے۔
تفصیلات کے مطابق احمد فلپوٹو اردو یونیورسٹی کے سندھی ڈیپارٹمنٹ کا ہونہار طالب علم تھا۔جو کہ عرصہ دراز سے اپنے طالب علم ساتھیوں کی مدد کرنے کے لیے متحرک تھے۔ انکے طالب علم ساتھیوں کا ہم سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ احمد فلپوٹو ہر وقت طالب علموں کے مسائل پر ان کی مدد کے لیے تیار رہتے تھے۔
احمد کو بروز ہفتہ سچل گوٹھ میں ایک ہوٹل پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے جبری طور پر اٹھا کر نا معلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔
جس کے بعد احمد فلپوٹو کے ساتھیوں نے ان کے بارے میں قریبی تھانے سے معلومات لینا چاہی مگر انہیں پولیس کی طرف سے ایسی کوئی معلومات ابھی تک فراہم نہیں کی جارہی۔
سٹوڈنٹس ہیرالڈ سے بات کرتے ہوئے انکے ساتھی طالب علموں کا کہنا تھا کہ اگر انکے ساتھی کو جلد از جلد رہا نا کیا گیا تو وہ دھرنہ دیں گے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ہمارے طالب علم ساتھیوں پر ہوتی ایسی نا انصافی پر ہم ہرگز خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
جب تک ہمارے ساتھی کو چھوڑ نہیں دیا جاتا ہم اس کے لیے آواز اٹھائیں گے اور اپنے ساتھی کی واپسی تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
احمد کے والدین کا کہنا ہے کہ احمد بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے اور ہم سب کے لیے ہمارے بازوؤں کی طرح ہے۔ ہمارے احمد کو رہا کیا جائے۔
آج کراچی پریس کلب کے سامنے احمد فلپوٹو کی رہائی کے لیے مظاہرہ کیا گیا ۔مظاہرین میں موجود پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹیو کی جنرل سیکرٹری ورثا پیرزادو نے ہمیں اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں جاری ماورائے عدالت گرفتاریاں اور گمشدگیاں انسانی حقوق اور آئین پاکستان کی شدید خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہیں۔انکا مزید کہنا تھا کہ ایسی کارروائیوں سے ملک بھر کے طالب علموں میں شدید خوف و ہراس پایا جانے لگا ہے۔انھوں نے احمد فلپوٹو کی جبری گمشدگی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ احمد ہمارا ساتھی اور ایک ہونہار طالب علم ہے،ہم اس کی رہائی تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔