ایلیٹ یعنی اشرافیہ اپنے آپ میں رعونت سے بھرپور ایک لفظ ہے۔ سنتے ہی ذہن میں بددماغ، طاقت و دولت کے نشے میں بدمست، قانون سے اوپر اور ہماری دوڑ سے کہیں آگے شخصیات گھومنے لگتی ہیں۔
اس طبقہ اشرافیہ کے بھی کئی روپ ہیں جیسے کہ حکمراں اشرافیہ، سیاسی اشرافیہ وغیرہ۔ اشرافیہ کی اقسام میں ایک شاخ ہے دانشور اشرافیہ۔ یہ اپنے چاہنے اور ماننے والوں کی بڑی تعداد، سیاسی سماجی اثر رسوخ، ادبی یا صحافتی لابنگ، طاقتور اداروں سے تعلقات کی ٹھسک کو بنیاد بناکر اپنا ریٹ وصول کرتے ہیں اور اپنی دانشوری کو عام لوگوں سے اشرف سمجھتے ہیں۔
یہ درست اور غلط کا خود ہی ایک پیمانہ ہیں، یہ اخلاقیات کا چلتا پھرتا درس اور ہر موضوع میں مہارت کی حد تک طاق ہونے کے زعم میں مبتلا ہیں۔
یہ فہم و فراست کا چشمہ، یہ علم و ہنر کا مینارہ دانشور اشرافیہ اپنے تجزیات،کتابوں، کالموں، تبصروں اور ماہرانہ رائے کے نام پہ پبلک کو رج کے چیپی لگا رہا ہے۔ جو برا مان جائیں وہ خود کو ایوریج دانشور سمجھ کر درگزر کریں۔
ایک شدید جذباتی دانشور چاہتے ہیں کہ جو جمہوریت کی بات کرے اسے توپ کے سامنے کھڑا کر دیا جائے اور بارود کی قیمت بھی اسی سے وصولی جائے۔ ایسے چٹ پٹے تجزیے وہ گذشتہ بیس پچیس برسوں سے دے رہے ہیں، انہیں ٹی وی، ڈیجیٹل میڈیا اور اخبار ہر طرح کے میڈیم کا پلیٹ فارم دستیاب ہے۔ پبلک کو منہ سے نکلتے جھاگ دیکھنا پسند ہے، اور میڈیا کے اداروں کو پبلک کے کلک، سو اس انٹ شنٹ کو نجانے کب تک سننا ہو گا۔
ایک اور جناب ہیں ان کا گھوڑا ہینری ششم، شاہ رنگیلا پنجم، سلطنت عثمانیہ سوم کے قصوں سے دوڑتے دوڑتے سیدھا ایک ڈالر میں بل گیٹس دوم بنانے پہ آکر دم لیتا ہے۔ یہ دانشوربھی اخبار، ٹی وی اور انٹرنیٹ ہر میڈیم پہ نظر آتے ہیں۔
ان کی سائنس منفرد ہے۔ یہ اخبار کے قارئین میں بوریت سہہ لینے کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے بہادر شاہ ظفر کے قصے لکھتے ہیں، ٹی وی پہ سیاسی مرغے مرغیاں لڑانے کا شو کرتے ہیں اور یوٹیوب پہ نوجوانوں کو دنیا کے تمام مسائل کا حل چھ منٹ میں بتاتے ہیں۔ خوب بکتے ہیں۔
پھر چند ایک دانشور خواتین ہیں جو ’کیلے کے چھلکے کوڑا دان میں ڈالنا چاہیے‘ سے لے کر دوپٹہ ڈھائی گز ہونا چاہیے تک روزمرہ کے معمولات کو چبھتا ہوا معاشرتی مسئلہ بناکرلکھتی ہیں، بولتی ہیں۔ یہ بھی حکیم الامت سمجھی جاتی ہیں۔
ایک دانشور بات بات پہ دھبڑ دوس کرا دیتے ہیں، کبھی حکومتوں کو، کبھی سیاستدانوں کو۔ ایک تجزیہ نگار دانشور 40 برس کی تحقیقاتی صحافت کے بعد بھی تُکے بازی تک محدود ہیں، ایک اور دانشور چار سال میں 40 بار حکومت کا جانا ٹھہرا چکے ہیں۔ حکومت جا چکتی ہے، نہ یہ بےمزہ ہوتے ہیں۔
یہ مفت کا گیان نہیں جو دینے والے اپنی عمر بھر کی ریاضت کا نچوڑ پبلک کو فی سبیل اللہ دیتے ہیں، یہ جعلی دانش بھی بازار میں رکھی جنس ہے جس کی قیمت اشرافیت کے حساب سے لی جاتی ہے۔
چھٹانک بھر دانش کی یہ ڈیلی ڈوز پیدا کرنا پڑتی ہے، تخلیقی صلاحیت کوئی نائن ٹو فائیو ہے نہیں کہ بیٹھے اور لفظ اگلنا شروع ہو گئے، مگر سبحان تیری قدرت۔ یہ اکیلے نہیں ہوتے، دانش کے کاروبار کا ایندھن ریسرچرز کی ٹیم ہوتی ہے۔ اخبار، ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا کا پاپی پیٹ بھرنے کو مال آرڈر پہ تیار کرنا ضروری اور مجبوری ہے۔
اب یہ تجزیہ خود دیں یا ریسرچر سے لکھواکر دیں اس کے درست یا صحیح ہونے پر بحث کی جا سکتی ہے، مگر کم از کم تحریر تقریر میں کوئی تجزیہ تو دیں۔ منہ سے غوں غوں کی آواز ضرور نکالیں مگر ہماری علمی راہنمائی تو فرمائیں، کہیں سے تو یہ لگے کہ دانش ور نے واقعی اپنی فہم و دانش کواستعمال کیا ہے۔ کوئی کیس ہسٹری،حوالہ، کوئی دلیل، کچھ تو ایسا پیش کریں کہ لگے دانشور کے گرے میٹر سے کام لیا گیا ہے۔
ایسی کھوکھلی دانشوری کی مقبولیت کا مسئلہ دو طرفہ ہے۔ اگر یہ نیم حکیم سُرخ اینٹیں پیس کر پُڑیا میں بند کرکے دیتے ہیں تو یہ دو نمبر چورن خریدنے والے بھی ہزاروں میں ہیں۔ ان کی وڈیو وائرل ہو جائے جس میں یہ بولیں ’جاہل عوام ، مائی فُٹ‘ تو تماشا دیکھنے لاکھوں پہنچے ہوں گے۔
اب میڈیا کے ادارے ایسے بھاری بھر کم دانشور اشرافیہ کو جگہ نہیں دیں گے تو کیا سوشل سائنس کے ان پروفیسر صاحب کو دیں گے جو کہ گمنامی میں اپنی کلاس کے بیس طالبعلموں کو سماجی انصاف کا فلسفہ اور جدید دور کے چیلنج پڑھا رہا ہو گا؟
آج پاکستانی ناظرین کے لیے بننے والے یوٹیوب چینل، ٹی وی چینلوں کے پرائم ٹائم شوز، ڈیجیٹل میڈیا کا سپیس اور اخبارات و رسائل میں ٹاپ سپاٹ پاکستان کے ادیب، پروفیسر، قانون دان، فلسفی اور محقق نہیں رکھتے۔ رکھ بھی نہیں سکتے کیونکہ ہمیں حکمت و دانش کے نام پہ آوارہ خیالات، منتشر سوچ اور کھوکھلے مگر مقبول عام نظریہ کی ڈیلی ڈوز مل رہی ہے۔ یا اسے یوں سمجھ لیں کہ خود ہمیں بھی قومی حکیموں کی یہ لال پُڑیا پسند ہے سو آئیے مل کہ دیکھتے ہیں اوٹ پٹانگ، پڑھتے ہیں اناپ شناپ۔
بقلم علی منیب نظامی