سنید کی یاد میں: سنید کی ہیرالڈ کے لیے لکھی گئی تحریر

ایڈیٹرز نوٹ: سٹوڈنٹ ہیرالڈ کی ٹیم کے لیے یہ انتہائی غم کی صورتحال ہے۔ ۔سنید جیسے ہونہار طالب علم رہنما اور درد دل رکھنے والے انسان کا یوں ہم سے بچھڑ جانا سٹوڈنٹ ہیرالڈ کی ٹیم کے لیے ایک ایسا نقصان ہے جسے کبھی بھی پورا نہیں کیا جاسکے گا۔ ہم ہر لحاظ سے سنید اور انکے دوستوں کے قتل کی مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ سنید کے قاتلوں کو فورا گرفتار کیا جائے۔ آج ہم سنید کی یاد میں انکی ہیرالڈ کے لیے لکھی گئی ایک تحریر آپ سب لوگوں کے ساتھ شئیر کررہے ہیں۔

کیا محسن داوڑ نے مظلوم قوم کو دھوکہ دے کرتقسیم کیا ہے؟

تحریر ازسنید داوڑ

جون 2، 2021

میں ہمیشہ سے ایک بہترین و مضبوط سیاست کا حامی ہوں، میں ہمیشہ سے اس بات کا قائل ہوں کہ پارلیمانی و غیر پارلیمانی کی بات نہیں ہے، بات سیاست کی ہے، بات شخصیت کی ہے، اگر کسی قابل شخص، سیاست اور قوم کا دکھ درد سمجھنے اور ان کا حل نکالنے کا ہنر رکھنے والے کو منتخب کر کے پارلیمنٹ بھیج دیا جائے تو مجھے بتاؤ کہ وہ ایسا کونسا کام نہیں کر سکتا جو کوئی عام بندہ روڈ پر احتجاج کرنے سے حاصل کر سکتا ہے ؟

کیا پارلیمانی ممبر روڈ پر احتجاج نہیں کر سکتا؟ جلسہ نہیں کر سکتا؟ لاپتہ افراد کیلئے جدوجہد نہیں کر سکتا؟ پختونوں پر برسوں سے ہونے والے ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتا؟ یقیناً اس کا جواب ہاں میں ہوگا کہ پارلیمانی ممبر وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو ایک غیر پارلیمانی شخص کر سکتا ہے، تو اس لئے میں کہہ رہا ہوں کہ بات پارلیمانی و غیر پارلیمانی کی نہیں ہے بلکہ شخصیت کی ہے، کسی فرد یا گروہ کی ہے، اگر کسی فرد، تنظیم یا پارٹی کا مقصد اپنی قوم کی خدمت کرنا ہو، ان کے حقوق کی بات کرنا ہو تو وہ کسی بھی حالت میں کر سکتا ہے، البتہ پارلیمان جانے سے آپ کے پاس آواز اٹھانے کیلئے سڑک اور گلیوں کے ساتھ ساتھ پارلیمان کا فلور بھی مل جاتا ہے۔

یہاں پی ٹی ایم موقف کی بات کروں گا، پی ٹی ایم کا موقف ہے کہ صرف پی ٹی ایم کی طرف سے کوئی امیدوار نہیں ہوگا، کوئی پی ٹی ایم کے نام پر ووٹ نہیں لے گا، باقی آپ ووٹ کاسٹ بھی کر سکتے اور ووٹ لے بھی سکتے ہیں یعنی کسی کا پارلیمنٹ جانے یا لے جانے پر پی ٹی ایم کا کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ پی ٹی ایم کے نام پر جانے یا لے جانے پر اعتراض ہے۔

اب محسن داوڑ کے پارلیمانی سیاست اور پارٹی کی طرف آتے ہیں، محسن داوڑ کی رائے صرف پارلیمانی سیاست کی ہے، بیانیہ اور موقف تبدیل کرنے کی نہیں ہے، پارلیمانی سیاست سے بھی یہی قوم کا مقدمہ لڑے گا اور یہی بیانیہ آگے لے جائے گا، پارلیمنٹ جانے پر محسن داوڑ کی مخالفت اور اس کو غدار کی طرح پیش کرنا زیادتی ہے۔ محسن داوڑ کی مخالفت اور غدار کی طرح پیش کرنا صرف اس بنیاد پر کیا جا سکتا ہے جب وہ اپنا بیانیہ اور موقف تبدیل کرے جب وہ اپنی قوم کا مقدمہ لڑنے سے دستبردار ہو جائے اور تب میں بذات خود سب سے آگے صف میں اس کی مخالفت کروں گا لیکن صرف اس بات پر کہ وہ پارلیمنٹ جانا چاہتا ہے ان کی مخالفت کرنا اور انہیں غدار کی طرح پیش کرنا ان کے ساتھ ساتھ پختون قوم کے ساتھ بھی زیادتی ہے کیونکہ وہ اپنی پختون قوم کا مقدمہ بہترین انداز میں لڑ سکتا ہے اور لڑ بھی رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صرف اس بات پر محسن داوڑ کی مخالفت کرنا کہ پارلیمنٹ جانا چاہتا ہے اور پارلیمانی سیاست کرنا چاہتا ہے دراصل پی ٹی ایم کے موقف کی مخالفت کرنا ہے۔

پی ٹی ایم کے موقف پر زرا غور کریں، پی ٹی ایم کہتی ہے کہ پی ٹی ایم کے دروازے ہر پارٹی کیلئے کھلے ہیں، پی ٹی ایم بار بار اس بات پر زور دے رہی ہے کہ پارٹی سے پی ٹی ایم کے اختلافات نہیں ہیں اور نہ چاہتی ہے، سیاسی پارٹیوں سے اختلافات نہ رکھنے کا سیدھا مطلب یہ بنتا ہے کہ پارلیمنٹ سے پی ٹی ایم کے نہ تو اختلافات ہیں اور نہ ہی اختلافات چاہتی ہے، کیونکہ سیاسی پارٹیاں پارلیمینٹ کا حصہ ہی تو ہیں۔

پارلیمنٹ سے اختلافات ایک صورت میں ممکن ہے کہ پی ٹی ایم ووٹ کاسٹ کرنے کی مخالفت کریں کہ چونکہ ہمیں پاکستان کے پارلیمنٹ پر بھروسہ نہیں ہے اور نہ وہ ایوان ہمارے مسائل کا حل ہے اس لئے ہم احتجاجاً پارلیمنٹ نہیں جائیں گے اور عوام کو اس بات کر قائل کرنے کی جدوجہد شروع کریں کہ ووٹ کسی کے حق میں بھی استعمال نہیں کریں گے، لیکن اگر پی ٹی ایم اس بات کی مخالفت نہیں کرتی کہ کوئی ووٹ کاسٹ نہیں کرے گا تو کسی کا بھی پارلیمنٹ جانے پر اعتراض کرنا دراصل پی ٹی ایم کے موقف پر اعتراض کرنا ہے اور محسن داوڑ کو صرف اس بات پر غدار کی طرح پیش کرنا زیادتی ہے۔ میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ اگر محسن داوڑ بالفرض قوم کا مقدمہ لڑنے سے دستبردار ہو جائے تو ان کی مخالفت کرنا اور انہیں غدار کہنا آپ کا حق ہے اور اس میں ہم آپ کے ساتھ ہیں، لیکن صرف پارلیمنٹ جانے پر انہیں غدار کی طرح پیش کرنا آپ کو کسی نے غلط گائڈ کیا ہے۔

اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بعض لوگ اعتراض کر رہے ہیں کہ چونکہ پختون قوم پہلے سے دو نیشنلسٹ پارٹیوں (اے این پی اور پی میپ ) میں تقسیم ہے اور مزید تقسیم کرنا نقصان دیں ہے، اس حوالے سے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں بس آپ تھوڑی سی عقل خود استعمال کریں اور یہ دیکھیں کہ پختونخواہ کے 51 قومی اسمبلی سیٹوں میں سے کتنی اے این پی کے پاس ہیں اور کتنی میپ کے پاس؟

یہ تقسیم والی بات تو ایسے کی جا رہی ہے جیسا کہ پختونخواہ کے 51 قومی اسمبلی سیٹوں میں سے بہت تیز ترین مقابلے کے تحت کبھی اے این پی 26 ، 27 سیٹیں حاصل کر دو تین سیٹوں سے جیت جاتی ہیں جبکہ باقی 24 ، 25 پی میپ لے جا کر دوسرے نمبر آتی ہے اور کبھی دو تین سیٹوں سے پی میپ جیت جاتی ہے۔

اے این پی کی صرف ایک قومی اسمبلی کی سیٹ ہے جبکہ پی میپ کا تو کوئی سیٹ ہے ہی نہیں تو یہاں قوم کیسے تقسیم ہوگئی؟ اب اگر چند سیٹیں پہلے سے موجود نیشنلسٹ جیت کر اسمبلی پہنچتی ہیں اور چند سیٹیں نئی پارٹی جیت جائے تو یہاں مجھے قوم کی تقسیم اور نقصان نہیں بلکہ فائدہ دکھائی دے رہا ہے۔

کبھی ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ تینوں پارٹیاں کچھ کچھ حاصل کر کے اتحاد یا کوئی ایسا طریقہ بنائیں کہ قوم کا فائدہ ہو، مثبت سوچیں، زیادہ مخالفت کرنا ہی قوم کے نقصان میں ہیں، ایک دوسرے کو برداشت اور ان کی کامیابی پر خوش ہونا ہی قوم کے فائدے میں ہیں !!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *