کرونا وائرس اور حکومت کی تعلیم دشمن پالیسیاں

کرونا وائرس اور حکومت کی تعلیم دشمن پالیسیاں

مقدس افضل

کرونا وائرس کہ پھیلتے ہی دنیا بھر کا نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ وبائی مرض نہ صرف خطرناک ہے بلکہ جان لیوا بھی ہے اور اس کے پھیلاو کی روک تھام کے لئے سوشل ڈسٹینسنگ یعنی معاشرتی دوری ہی واحد حل دکھائی دیتا ہے۔ معاشرتی دوری کے لئے بہت سے ممالک نے مکمل طور پر لاک ڈاون کر رکھا ہے تاکہ اس وبا کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔ کچھ ضروری صنعتوں کے علاوہ باقی تمام معاشی سرگرمیاں معطل کر دی گئی ہیں۔دنیا کو بے تحاشا معاشی چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کیلئے ترقی یافتہ ممالک بے بس نظر آتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ پاکستان بھی تیسری دنیا کے ایسے ممالک کی صف میں شامل ہے جس نے ماضی میں کئے گئے غلط فیصلوں کی بدولت اس بحران میں خود ساختہ نئے بحران پیدا کر دیئے ہیں۔ اس وباء نے حکومتی صحت اور معاشی پالیسیوں کے ساتھ تعلیم دشمن پالیسیوں کوبھی بے نقاب کر دیا ہے۔      

پاکستان کا تعلیمی نظام جو پہلے ہی فرسودہ حال تھا اب مزید بحران کا شکار ہو چکا ہے ۔  طلبہ کے تعلیمی مسائل پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر خاطر خواہ بحث جاری ہے۔ طلبہ، حکومت پاکستان اور ایچ ای سی کی توجہ ان مسائل کی طرف مبذول کروانے کیلئے انتھک محنت تگ ودو کررہے ہیں۔ آن لائن کلاسسز اور بے جا فیسوں کے ساتھ ایک اھم مسئلہ جس کی طرف توجہ نہیں دی جارہی وہ طلبہ کے ہاسٹلوں کے واجبات کی ادائیگی کا مسئلہ ہے۔ 

پاکستان میں چھوٹے شہروں میں یونیورسٹیاں نہ ہونے کے باعث بہت سے طالبعلموں کو تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے بڑے شہروں میں ہجرت کرنا پڑتی ہے اور وہاں ہاسٹلوں میں قیام کرنا پڑتا ہے ۔ یونیورسٹی ہاسٹلز کی تعداد بہت کم ہے اسی لئے محدود نشستوں کے باعث طلباوطالبات پرائیویٹ ہاسٹلوں میں رہنے پہ مجبور ہیں ۔ جہاں سرکاری اداروں کے ہاسٹلوں میں طلبہ وہ بے شمار پریشانیوں کا سامنا ہے وہیں پرائیویٹ ہوسٹلوں کو ریگیولرائز نہ کرنے کی وجہ سے کم سہولیات کے عوض طلبہ و طالبات سے بہت مہنگے کرائے وصول کئے جاتے ہیں ۔ خاص کر طالبات کو ان ہاسٹلوں میں رہنے کیلئے بہت زیادہ فیسیں اور کرائے دینا پڑتے ہیں ۔ طلبہ و طالبات کے پرائیویٹ ہاسٹلز کے ماہانہ کرائیوں میں سو فیصد تک کا فرق ہے۔

وباء کے اس مشکل وقت میں جب غریبوں کو روٹی کے لالے پڑے ہیں ، ہاسٹلز اور یونیورسٹی کے دیگر واجبات کی ادائیگی کے نوٹسز طلبہ پر بجلی بن کر گر رہے ہیں۔ طالبعلم جو کسی بھی معاشرے کا مستقبل ہوتے ہیں ان کے لیے بہترین سہولیات مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے جبکہ پاکستان میں تعلیمی بجٹ کو بڑھانے کے بجائے ہر گزرتے بجٹ میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔ ریاست کا یہ عمل اس بات کع واضح کرتا ہے کہ ریاست کی ترجیحات تعلیم نہیں بلکہ کچھ اور ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں طلبہ کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ طلبہ یونینز پر عائد غیر آئینی پابندی کی وجہ سے طالبعلموں کی شنوائی کرنے والا کوئی نہیں۔ اس پابندی کا سب سے زیادہ نقصان صرف طلبہ کو ہوا ہےجن کے پاس اپنے مسائل سنانے کیلئے کوئی باضابطہ اور آئینی پلیٹ فارم نہیں الٹٓا کسی بھی جائز مطالبے کی صورت ان پر سیاسی ہونے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اگر ہر چیز سیاست یا سیاسی عمل سے جڑی ہے تو طلبہ کے مسائل کو غیر سیاسی کیسے رکھا جاسکتا ہے؟ ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے طلبہ کے تمام مسائل کا تدارک ناگزیر ہے۔

حکومت کی طرف سے پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں میں کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس طرح کے حکومتی فیصلوںکا دائرہ کار صرف  پرائویٹ سکولوں تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ اسکا اطلاق ہر پرائیویٹ ادارے بشمول پرایئویٹ کالج ، اور پرائیویٹ ہوسٹلز پر بھی ہونا چاہیئے ۔ لاہور ، کراچی، اسلام آباد، کوئٹہ، پشاور سمیت تمام بڑے اورچھوٹے شہروں کی پرائیویٹ ہاسلٹلز انتظامیہ کو متنبہہ کیا جائے کی وہ اس بحران میں ان سے ہاسٹل فیسیں وصول نا کریں۔۔ 

غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے ولے طلبہ اپنے والدین اور اہل خانہ کی معاشی حالت زار کودیکھ کر پریشان ہیں جہاں بنیادی گھریلو ضروریات پوری کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے میں حکومتی ، پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور ہاسٹلز انکی پریشانیوں میں شدید اضافہ کر رہے ہیں ۔ اگر حکومت کی یہی علم اور تعلیم دشمنی پالیسیاں جاری رہیں اوراس نے  اپنے حقیقی مستقبل کی پریشانیوں کا ازالہ نہ کیا تو تحریک انصاف کی حکومت کا دو نہیں ایک پاکستان کاخواب، صرف امیروں کے پاکستان کا خواب بن کر رہ جائیگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *