جی سی یو فیصل آباد لیہ کیمپس نے طالبات کی جنسی ہراسگی کی تصدیق کر دی

جی سی یو فیصل آباد لیہ کیمپس نے طالبات کی جنسی ہراسگی کی تصدیق کر دی

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد لیہ کیمپس میں طالبات کو کیمپس ڈائریکٹر اور ٹیچرز کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ جس کے نتیجے میں مین کیمپس انتظامیہ نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس نے طالبات کی شکایات کی تصدیق کی ہے۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد لیہ کیمپس پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت قائم کردہ ادارہ ہے جو ضلع لیہ میں واقع ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے یہاں جنسی ہراسانی کے واقعات کی خبریں گردش کر رہی تھیں جو کہ رپورٹ نہیں ہو رہے تھے۔

کچھ عرصہ قبل یونیورسٹی طالبات نے جنسی ہراسانی کی شکایات سٹیزن پورٹل پر کرنے کے ساتھ ساتھ مین کیمپس انتظامیہ کو بھی خطوط لکھ کر ثبوت سمیت اس بارے آگاہ کیا۔ جس کے نتیجے میں بننے والی بنیادی انکوائری ٹیم نے طالبات کی جنسی ہراسانی کی شکایات کی تصدیق کی ہے۔

 

روہی نیوز ٹی وی کے مطابق وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد ڈاکٹر شاہد کمال نے مزید کاروائی و تفتیش کیلئے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ جوکہ اگلے تین ماہ میں اپنی رپورٹ تیار کرے گی۔

 

سٹوڈنٹس ہیرلڈ سے بات کرتے ہوئے پروگریسیو سٹوڈنٹس کلیکٹیو کی رہنما اقرا نے کہا کہ جی سی یونیورسٹی لیہ سب کیپمس میں ایک مضبوط مافیہ کی ایما پر جنسی ہراسانی کے واقعات مسلسل ہوتے رہے ہیں۔ لیکن طالبات کو ڈرا دھمکا کر چپ کرایا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کیس کو خواہ مخواہ لمبا کیا جا رہا ہے، جب انکوائری کمیٹی نے جنسی ہراسانی کی تصدیق کر دی تو ‘اعلی سطحی کمیٹی’ اور تین ماہ کی مزید تحقیقات کرنا انکی سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جلد از جلد مجرم ڈائریکٹر اور جنسی ہراسانی میں ملوس انتظامیہ کے افراد کو برطرف کیا جاۓ۔

اس معاملے پر پروگریسیو سٹوڈنٹس کلیکٹو کی ترجمان کلثوم فاطمہ نے مطالبہ کیا کہ جی سی یونیورسٹی لیہ سب کیپمس میں فی میل اساتذہ اور طالبات پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جاۓ اور بلا تاخیر مجرموں کو انکے عہدوں سے برطرف کیا جاۓ۔ انھوں نے کہا کہ اگر ان لوگوں کو برطرف نہیں کیا جاتا تو وہ لیہ، لاہور اور ملتان کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں میں بھی احتجاج کریں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر دفعہ طالبات کو ہراسگی کے بعد میڈیا پر آ کر ہی تھوڑی توجہ ملتی ہے جو کہ صرف 5 فیصد کیسوں میں ہی ہوتا ہے۔ اس لیے اس معاملہ کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ جس کا پہلا قدم خواتین طلبہ اور اساتذہ پرمشتمل کمیٹی کا قیام ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *