تعلیمی اداروں پر حملوں کے حقیقی شراکت دار 40 سال قبل مجاہدین اور آج دہشت گردوں کے نام سے جانے جانے والی تنظیموں کی جانب سے تعلیمی اداروں پر حملوں کے نئے سلسلہ کا آغاز ہوا ہے۔ اقراء سے شروع ہونے والے دین کے وارث ہونے کے دعویداروں کی جانب سے کچھ روز قبل پشاور اور کابل کے تعلیمی اداروں میں ہونے والے دھماکوں میں درجنوں طلبہ اور اساتذہ قتل اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ دنیا بھر کی نیوز ایجینسیوں نے اس سفاک حملہ کو رپورٹ کیا اور پھر دنیا بھر سے مذمت کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ لیکن کیا صرف اس حملے کو کسی مذہبی گروہ کی بے وقوفی، سفاکیت اور انتہا پسندی کہہ کر مذمت کر دینا کافی ہے؟ اگر ہم اس مسلئہ کا حل چاہتے ہیں تو ہمیں اس مسلئہ کی وجوہات کو جانچنا ہو گا، جن پر یا تو کوئی بات ہی نہیں کرتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے یہ باتیں پرانی ہو گئیں، کئی دفعہ کی جا چکیں یا اگر کوئی کرتا ہے تو اس کو مناسب کوریج نہیں دی جاتی۔ پاکستانی انقلابی مفکر اقبال احمد نے کہا تھا " سچائی کو دہراتے رہیے یہ ایک دفعہ بتانے کے بعد بے اثر نہیں ہو جاتی۔ اس لیے اس بات سے قطع نظر کے کسی کو پتہ ہے یا نہیں آپ اسے دہراتے رہیے۔ مختلف ذرائع اور اداروں کے ذریعے جھوٹ پھیلانے کا نظام اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ ایک دفعہ سچ کا بتا دینا کافی نہیں " اس لیے آج کے واقعات کو سمجھنے کے لیے تاریخ کا جائزہ لینا ہو گا۔ دراصل افغانستان کے موجودہ حالات کی بڑی وجہ بیرونی مداخلت ہے۔ جس میں سب سے زیادہ کردار امریکہ کا ہے۔ بلاشبہ 70 کی دہائی کے اختتام تک امریکی مداخلت سے قبل افغانستان میں سیاسی کشمکش جاری تھی لیکن افغانستان کے حالات آج سے کہیں بہتر تھے۔ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سیکولرازم کے علمبردار امریکہ نے سیاست میں مذہب کو تھوک کے حساب سے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے اپنے کچھ اتحادیوں کو ٹھیکے دیے گئے۔ جنھوں نے مجاہدین کی صورت امریکی بندوقوں کو کندھے فراہم کیے۔ بدقسمتی سے اس عمل میں سب سے زیادہ کردار پاکستان کا ہے۔ جس نے نام نہاد مجاہدین کی پیدوار کے لیے نصاب تعلیم سے لے کر ٹی وی پروگراموں کو انتہا پسند مواد سے بھر دیا۔ جس سے ابھی تک جان نہیں چڑھائی جا سکی یا ریاست چھڑانا نہیں چاہتی۔ 90 کی دہائی میں جب امریکہ اینڈ کمپنی کا پیدا کردہ یہ گروہ حکومت میں آیا تو امریکی " انوسٹمنٹ" کی واپسی کی بجائے، وقت کے ساتھ ساتھ اس نے امریکہ ڈکٹیشن سے انکار شروع کر دیا جس پر امریکہ نے اپنی اعلی اقدار کی عینک لگائی جس سے اسے مذہبی ریاست کی خرابیاں اور انسانی حقوق کی پامالیاں نظر آنے لگیں۔ جس کے بعد اپنے ہی پیدا کردہ گروہ کے خلاف امریکی محاذ آرائی کا آغاز ہوا۔ بلاشبہ 90 کی دہائی میں (امریکہ کے ہی پیدا کردہ) مذہبی انتہا پسندوں کی حکومت میں افغانستان میں انسانی حقوق کی حالت انتہائی پتلی تھی لیکن یہ حالت سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک سے مختلف نہیں تھی لیکن کیونکہ وہ امریکہ بہادر کے حلیف ٹہھرے اس لیے انھیں اس معاملہ میں استثنی حاصل رہا اور افغانستان مسلسل نشانہ پر رہا۔ یہ دوہرا معیار آج بھی قائم ہے، طالبان کے وفود میں خواتین کی عدم شمولیت کو پوری دنیا کے میڈیا پر زیر بحث لایا جاتا ہے لیکن عرب ممالک کے وفود میں خواتین کی عدم شمولیت کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ بلاشبہ انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین کے بارے میں طالبان کے رویہ پر تنقید بنتی ہے لیکن کچھ دوسرے ممالک کے ویسے ہی رویہ پر طاقتور ممالک کا آنکھیں بند کر لینا سوالات کو جنم دیتا ہے۔ 90 سے شروع ہونے والی اس محاذ آرائی کا نتیجہ 9/11 کے المناک سانحہ کی صورت میں سامنے آیا۔ جس کے بعد امریکہ نے "جذباتی ردعمل" دیا اور افغانستان پر حملہ کر دیا۔ دو دہائی قبل شروع ہونے والی یہ جنگ لاکھوں افغانوں اور پاکستانیوں اور ہزاروں امریکیوں کے قتل کے بعد آج تک جاری ہے۔ اس جنگ میں جو نئی اور افسوسناک چیز کا اضافہ ہوا وہ دونوں فریقین کی جانب سے بچوں اور عورتوں کا قتل عام ہے۔ جنگ میں خواتین اور بچوں پر پلاننڈ حملے افغانستان کی اقدار کے خلاف تھا لیکن جب امریکہ کی جانب سے ڈرون حملوں کا آغاز ہوا اور بچوں کے مدرسے اور بعض اوقات گاوں کے گاوں زمین بوس ہونا شروع ہوئے (جنھیں قومی اور بین الاقوامی نیوز چینل نے نہیں دکھایا) تو طالبان کی جانب سے بھی بچوں اور عورتوں کی تمیز کیے بغیر حملوں کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ اس لیے آج طالب علموں پر حملوں اور افغانستان میں 80 سے جاری بیرونی مداخلت کا گہرا تعلق ہے، دھماکے کرنے والے اور ان کو پیدا کرنے والوں کا کردار ایک جیسا ہے، اس لیے ان دونوں پر تنقید بھی ان کے حصہ کے مطابق بنتی ہے۔ آج طالبان سے امریکی مذاکرات اس بات کا اعتراف ہیں کہ افغانستان پر حملہ کا امریکی فیصلہ بہت بڑی غلطی تھی، اب امریکہ اور دیگر طاقتور ممالک کو تھوڑا اور آگے بڑھتے ہوئے تیسری دنیا کے معاملات میں مداخلت کرنے کی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے بھی باز رہنے کا عہد کرنا چاہیے۔ اور پاکستان جیسے ممالک کو نہ صرف سامراج کے آلہ کار بننے سے باز رہنے کا عہد کرنا ہو گا بلکہ ان تمام اقدامات جن کو انتہا پسند سوچ کی پیدوار کے لیے اٹھایا گیا انھیں بھی واپس لینا ہو گا، جیسا کہ رجعتی نصاب کی جگہ ترقی پسند نصاب تعلیم کو اپنانا۔ تا کہ مستقبل میں اس طرح کی صورتحال سے بچا جا سکے۔

تعلیمی اداروں پر حملوں کے حقیقی شراکت دار

چالیس سال قبل مجاہدین اور آج دہشت گردوں کے نام سے جانے جانے والی تنظیموں کی جانب سے تعلیمی اداروں پر حملوں کے نئے سلسلہ کا آغاز ہوا ہے۔ اقراء سے شروع ہونے والے دین کے وارث ہونے کے دعویداروں کی جانب سے کچھ روز قبل پشاور اور کابل کے تعلیمی اداروں میں ہونے والے دھماکوں میں درجنوں طلبہ اور اساتذہ قتل اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ دنیا بھر کی نیوز ایجینسیوں نے اس سفاک حملہ کو رپورٹ کیا اور پھر دنیا بھر سے مذمت کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ لیکن کیا صرف اس حملے کو کسی مذہبی گروہ کی بے وقوفی، سفاکیت اور انتہا پسندی کہہ کر مذمت کر دینا کافی ہے؟

اگر ہم اس مسلئہ کا حل چاہتے ہیں تو ہمیں اس مسلئہ کی وجوہات کو جانچنا ہو گا، جن پر یا تو کوئی بات ہی نہیں کرتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے یہ باتیں پرانی ہو گئیں، کئی دفعہ کی جا چکیں یا اگر کوئی کرتا ہے تو اس کو مناسب کوریج نہیں دی
جاتی۔

پاکستانی انقلابی مفکر اقبال احمد نے کہا تھا
” سچائی کو دہراتے رہیے یہ ایک دفعہ بتانے کے بعد بے اثر نہیں ہو جاتی۔ اس لیے اس بات سے قطع نظر کے کسی کو پتہ ہے یا نہیں آپ اسے دہراتے رہیے۔ مختلف ذرائع اور اداروں کے ذریعے جھوٹ پھیلانے کا نظام اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ ایک دفعہ سچ کا بتا دینا کافی نہیں ”
اس لیے آج کے واقعات کو سمجھنے کے لیے تاریخ کا جائزہ لینا ہو گا۔

دراصل افغانستان کے موجودہ حالات کی بڑی وجہ بیرونی مداخلت ہے۔ جس میں سب سے زیادہ کردار امریکہ کا ہے۔ بلاشبہ 70 کی دہائی کے اختتام تک امریکی مداخلت سے قبل افغانستان میں سیاسی کشمکش جاری تھی لیکن افغانستان کے حالات آج سے کہیں بہتر تھے۔

اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سیکولرازم کے علمبردار امریکہ نے سیاست میں مذہب کو تھوک کے حساب سے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے اپنے کچھ اتحادیوں کو ٹھیکے دیے گئے۔ جنھوں نے مجاہدین کی صورت امریکی بندوقوں کو کندھے فراہم کیے۔ بدقسمتی سے اس عمل میں سب سے زیادہ کردار پاکستان کا ہے۔ جس نے نام نہاد مجاہدین کی پیدوار کے لیے نصاب تعلیم سے لے کر ٹی وی پروگراموں کو انتہا پسند مواد سے بھر دیا۔ جس سے ابھی تک جان نہیں چڑھائی جا سکی یا ریاست چھڑانا نہیں چاہتی۔

نوے کی دہائی میں جب امریکہ اینڈ کمپنی کا پیدا کردہ یہ گروہ حکومت میں آیا تو امریکی ” انوسٹمنٹ” کی واپسی کی بجائے، وقت کے ساتھ ساتھ اس نے امریکہ ڈکٹیشن سے انکار شروع کر دیا جس پر امریکہ نے اپنی اعلی اقدار کی عینک لگائی جس سے اسے مذہبی ریاست کی خرابیاں اور انسانی حقوق کی پامالیاں نظر آنے لگیں۔ جس کے بعد اپنے ہی پیدا کردہ گروہ کے خلاف امریکی محاذ آرائی کا آغاز ہوا۔

بلاشبہ 90 کی دہائی میں (امریکہ کے ہی پیدا کردہ) مذہبی انتہا پسندوں کی حکومت میں افغانستان میں انسانی حقوق کی حالت انتہائی پتلی تھی لیکن یہ حالت سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک سے مختلف نہیں تھی لیکن کیونکہ وہ امریکہ بہادر کے حلیف ٹہھرے اس لیے انھیں اس معاملہ میں استثنی حاصل رہا اور افغانستان مسلسل نشانہ پر رہا۔

یہ دوہرا معیار آج بھی قائم ہے، طالبان کے وفود میں خواتین کی عدم شمولیت کو پوری دنیا کے میڈیا پر زیر بحث لایا جاتا ہے لیکن عرب ممالک کے وفود میں خواتین کی عدم شمولیت کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ بلاشبہ انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین کے بارے میں طالبان کے رویہ پر تنقید بنتی ہے لیکن کچھ دوسرے ممالک کے ویسے ہی رویہ پر طاقتور ممالک کا آنکھیں بند کر لینا سوالات کو جنم دیتا ہے۔

نوے سے شروع ہونے والی اس محاذ آرائی کا نتیجہ 9/11 کے المناک سانحہ کی صورت میں سامنے آیا۔ جس کے بعد امریکہ نے “جذباتی ردعمل” دیا اور افغانستان پر حملہ کر دیا۔ دو دہائی قبل شروع ہونے والی یہ جنگ لاکھوں افغانوں اور پاکستانیوں اور ہزاروں امریکیوں کے قتل کے بعد آج تک جاری ہے۔

اس جنگ میں جو نئی اور افسوسناک چیز کا اضافہ ہوا وہ دونوں فریقین کی جانب سے بچوں اور عورتوں کا قتل عام ہے۔ جنگ میں خواتین اور بچوں پر پلاننڈ حملے افغانستان کی اقدار کے خلاف تھا لیکن جب امریکہ کی جانب سے ڈرون حملوں کا آغاز ہوا اور بچوں کے مدرسے اور بعض اوقات گاوں کے گاوں زمین بوس ہونا شروع ہوئے (جنھیں قومی اور بین الاقوامی نیوز چینل نے نہیں دکھایا) تو طالبان کی جانب سے بھی بچوں اور عورتوں کی تمیز کیے بغیر حملوں کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔

اس لیے آج طالب علموں پر حملوں اور افغانستان میں 80 سے جاری بیرونی مداخلت کا گہرا تعلق ہے، دھماکے کرنے والے اور ان کو پیدا کرنے والوں کا کردار ایک جیسا ہے، اس لیے ان دونوں پر تنقید بھی ان کے حصہ کے مطابق بنتی ہے۔

آج طالبان سے امریکی مذاکرات اس بات کا اعتراف ہیں کہ افغانستان پر حملہ کا امریکی فیصلہ بہت بڑی غلطی تھی، اب امریکہ اور دیگر طاقتور ممالک کو تھوڑا اور آگے بڑھتے ہوئے تیسری دنیا کے معاملات میں مداخلت کرنے کی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے بھی باز رہنے کا عہد کرنا چاہیے۔ اور پاکستان جیسے ممالک کو نہ صرف سامراج کے آلہ کار بننے سے باز رہنے کا عہد کرنا ہو گا بلکہ ان تمام اقدامات جن کو انتہا پسند سوچ کی پیدوار کے لیے اٹھایا گیا انھیں بھی واپس لینا ہو گا، جیسا کہ رجعتی نصاب کی جگہ ترقی پسند نصاب تعلیم کو اپنانا۔ تا کہ مستقبل میں اس طرح کی صورتحال سے بچا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *