پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور زرعی اعتبار سے پاکستان کی زرعی اجناس کا گڑھ ہے۔آج پانی کی کمی اور آلودہ پانی کے مسائل سے دوچار ہے۔پنجاب جو کے پانچ دریاؤں کی سرزمین جانا جاتا تھا آج شاید اس نام کی وہ عزت و شہرت کھو بیٹھا ہے۔ پنجاب کا یہ مسئلہ پنجاب کے شہریوں اور کسانوں کے لیے معاشی قتل ثابت ہوگا۔
پانی کی کمی سے پنجاب کا بہت بڑا زرعی رقبہ آج ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی بڑی وجہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کی بھرمار کے علاؤہ پانی کی شدت اختیار کرتی ہوئی قلت بھی ہے۔ ناصرف زرعی پانی بلکہ پنجاب کے شہری علاقے بھی ماحولیاتی آلودگی بڑھنے کا باعث زہریلے پانی کی زد میں آ چکے ہیں۔
ہماری موجودہ صورتحال کا موازنہ اپنے پڑوسی ممالک سے کریں تو ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہم اپنی تباہی کے کس قدر قریب ہوتے جارہے ہیں۔
سونے پہ سہاگے کی مانند نااہلی کا مقام دیکھیے کہ ہمارے پانی کے ذخیرے بھی نا ہونے کے برابر ہیں۔پاکستان آج فقط تیس دن پانی جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جو کے ہماری ملکی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔جبکہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت تقریباً اس صلاحیت سے ہم سے دس گنا آگے جا چکا ہے اور پانی کے ذخیرے اور استعمال میں لانے کی صلاحیت میں سو دن تک کا اضافہ کرچکا ہے۔
دوسری جانب اگر میں بارشوں کے پانی کے استعمال کا ذکر کروں تو ہماری ملکی صلاحیت ہمارے کرپشن بھرے نظام کا کھلا ڈھنڈورا پیٹتی ہے ۔عالمی اداروں کی گائڈ لائن کے مطابق کسی بھی ملک میں بارش اور برفانی علاقوں کی طرف سے حاصل ہونے والے پانی کا کل حجم چالیس فیصد تک زخیرہ کرنے کی گنجائش ہونی چاہیے جبکہ ہمارے پاس یہ گنجائش بھی نا ہونے کے برابر اور ہمارے نظام پر سوالیہ نشان چھوڑتی ہے۔
پاکستان میں اگر ڈیمز پر ہوتے کاموں کا تزکرہ کیا جائے تو ہمیں ہماری پانی کی فکر کا باخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ بھاشا ڈیم اور مہمند پر تو ہم نے کام شروع کیا ہے جو کے ہماری سیاسی عدم استحکام کی موجودہ صورتحال حال سے انتہائی سست روی کا شکار ہو چکا ہے ۔اور اگر بڑے ڈیموں کا تذکرہ کریں تو ہمارے کالا باغ جیسے منصوبے آج بھی باہمی بے اعتمادی کی وجہ سے داخل دفتر نظام کی بھینٹ ہو چکا ہے ۔
آج اگر اس دور میں پانی کی اہمیت کا ذکر کیا جائے تو شاید ہمیں یہ جان کر دکھ ہو گا ، پانی کی کمی کسی بھی ملک کے دفاعی نظام میں بہت بڑی کمزوری ثابت ہو سکتا ہے۔جبکہ ہمارا سب سے بڑا صوبہ جو کے زراعت میں خود کفیل تھا آج کی موجودہ صورتحال میں خشک سالی کی جانب گامزن ہے۔
پنجاب جسے پانچ دریاؤں کی سرزمین کہا جاتا ہے اسکے دریاؤں کی صورتحال دیکھیں تو دل رونے کو آتا ہے۔ایک ڈیٹا کہ مطابق پاکستان کے سطحی آبی وسائل بنیادی طور پر دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں کے بہاؤ پر مشتمل ہیں، جو سالانہ تقریباً 138 ملین ایکڑ فٹ (MAF) پانی لاتے ہیں۔ صرف دریائے سندھ کل دریا کا 65% بہاؤ فراہم کرتا ہے، جب کہ جہلم اور چناب کا حصہ بالترتیب 17 اور 19% ہے۔ چوٹی کے بہاؤ کے مہینے مون سون کے موسم میں جون سے اگست ہوتے ہیں۔ خریف (موسم گرما) کے دوران بہاؤ 84% اور ربیع (موسم سرما) کے موسم میں 16% ہے۔ پاکستان کے اللووی میدانی علاقوں کو 50 MAF سے زیادہ کی صلاحیت کے ساتھ وسیع غیر محدود آبی ذخائر سے نوازا گیا ہے، جس کا 562,000 سے زیادہ نجی اور 10,000 عوامی ٹیوب ویلز کے ذریعے تقریباً 38 MAF کی حد تک فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں (انڈس بیسن سے باہر)، تقریباً 0.9 MAF زمینی پانی کی کل دستیاب صلاحیت میں سے، 0.5 MAF پہلے ہی استعمال ہو رہا ہے، اس طرح تقریباً 0.4 MAF کا توازن باقی ہے جو اب بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، حالانکہ کچھ آبی ذخائر پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں۔
دریائے سندھ کا نظام، اس طرح، زرعی پیداوار میں خود انحصاری کو جاری نہیں رکھ سکے گا۔ پانی فراہم کرنے والے دریاؤں کی طرف سے بھاری مقدار میں تلچھٹ لانے کی وجہ سے تین بڑے آبی ذخائر – تربیلا، منگلا اور چشمہ – سال 2030 کے آخر تک اپنی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 25 فیصد تک کھو دیں گے، جس سے پانی کی دستیابی کی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔
پانی کی قلت کا مسئلہ پنجاب میں بڑے پیمانے پر فوڈ سیکورٹی اور دوسرے معاشی و سماجی برائیوں کو اپنی کوکھ میں پال رہا ہے۔پاکستان کا زرعی شعبہ جس مکا زیادہ تر دارومدار پنجاب پر ہے ہماری کل جی ڈی پی کا 23 فیصد حصہ ہے جس سے کل 42 فیصد لیبر فورس کا روزگار جڑا ہوا ہے اور اس وقت پانی کی شدت اختیار کرتی قلت سے ہماری کل لیبر فورس میں سے 42 فیصد کا روزگار چھیننے کو تیار ہے۔جو کہ ہمارے جیسے ملک کی معیشت کے لیے موت کی مانند ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پانی کی قلت کی وجہ سے پاکستان کو 2025 تک تقریبا 70 ملین ٹن خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔جس کے ہماری معیشت پر تباہ کن اثرات ہوں گے۔
پاکستان کو جلد از جلد سیاسی معاملات میں استحکامِ پیدا کرنا ہو گا ۔اور مل بیٹھ کر اپنی قوم کو درپیش مسائل کی فکر سے چھٹکارا دلوانا ہو گا۔ ورنہ ہماری نسلیں پانی کی قلت سے شاید ہی چھٹکارا حاصل کر سکیں۔
ہمارے پاس آج دنیا میں موجود جدید ماڈل کی مثالیں موجود ہیں جن سے ہم اپنی ضرورت کے مطابق سیکھ بھی سکتے ہیں اور ان سے مدد بھی لے سکتے۔
ہمارا دوست ملک چین آج ہمارے پاس ایک بہترین ماڈل کے طور پر موجود ہے جس کی پانی کی ذخیرہ اندوزی قابلِ ذکر ہے اور ان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت دنوں کی بجائے سالوں تک محیط ہے جو کہ ہماری لیے ایک سبق آموز مثال ہے ۔
ہمارا صنعتی سیکٹر پانی کے بے تحاشا غیر قانونی استعمال میں ملوث ہیں اور آلودہ پانی کو بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے ندی نالوں میں میں پھینک دیتا ہے۔
آج افریقی ممالک بھی اس خطرے سے نمٹنے کے لیے خود کو تیار کرنے کی صلاحیت کے قابل بنا رہیں ہیں جن میں ایتھوپیا جیسے غیرب ممالک کا ذکر ہمارے لیے ایک قابل رشک مثال ہے جو آج دریا نیل پر ڈیمز بنانے میں افریقی ممالک کو مات دے رہا ہے۔
ہمیں بحثیت قوم کچھ اصول ضوابط پر عمل کرنا لازم بنانا چاہیے۔اس مشکل سے اسی وقت نکل سکتے ہیں جب ہماری اجتماعی اور انفرادی سوچ ایک پیج پر ہوگی۔ ہمیں پانی کے بے جا استعمال کو روکنا ہو گا۔
حکومت کو کوسنے والے ہم عوام بھی اس ناقابلِ معافی جرم میں برابر کے شریک ہیں ۔جو صاف پانی کو گھروں میں کفایت شعاری سے استعمال کرنے اور اس کی بچت یا دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کی طرف بلکل دھیان نہیں دیتے ۔
ہمارا صنعتی سیکٹر پانی کے بے تحاشا غیر قانونی استعمال میں ملوث ہیں اور آلودہ پانی کو بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے ندی نالوں میں میں پھینک دیتا ہے۔ ہمیں اس گھناونے کھیل کے خلاف آواز اٹھانی ہو گی اگر ہم اپنی نسلوں کی صحت یابی کے لیے فکر مند ہیں۔
پانی جیسی بنیادی ضرورت سے نظر ہٹا کر ہم آئی ٹی یا ایمزون میں جہاں تک آگے بڑھ جائیں ، زراعت جیسے سیکٹر کی پانی کی ضرورت پوری کئے بغیر ملکی معیشت تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو نہیں سنبھال سکتی۔
آج ہمیں بحثیت قوم اپنی نسلوں کے مستقبل کے لیے اگر ہم ان اقدامات پر ایک پیج پر نہیں آتے تو شاید ہماری نسلیں ایک صحت مند مستقبل سے محروم ہو جائیں۔ہمیں انفرادی سوچوں سے ہٹ کر پاکستان کے مستقبل کے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت ہے ۔ آج بھی اگر ہم پنجابی بلوچی سندھی جیسی سوچوں سے لڑتے رہے تو شاید ہمیں یہ امید چھوڑ دینی چاہیے کے ایک خودمختار مستقبل اور آزاد فضائیں آلودگی سے پاک زندگی ہماری منتظر ہے۔
ہمارے لیے ذات پات کے جھگڑوں سے نکل کر ملکی سالمیت کے لیے کام کرنے کا وقت ہے اگر آج ہم ایک عہد اپنے ملک کے نام کر دے تو وہ وقت دور نہیں ہمارا مستقبل بھی ایک طلوع ہوتے سورج کی طرح روشن ہو گا۔
کالم نگار اوکاڑہ یونیورسٹی میں نفسیات کے طالب علم ہیں ۔