یہ جو موجودہ پاکستان ہے، یہ بنگالیوں کی مرہونِ منت ہے ۔حقیقت تو یہ ہے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سے پہلے آزاد ریاست کا خواب بنگالی دیکھ چکے تھے اور اسے 1905 میں عملی جامہ پہنا کر انگریز سرکار اور کانگریس پر واضح کر چکے تھے ۔ صوبہ بنگال تقسیم ہوا ،اس کے کچھ ماہ بعد مسلم لیگ کا قیام ڈھاکہ میں عمل میں آ گیا ۔
بنگالیوں نے 1906 میں پاکستان کا راستہ صاف کر دیا ۔ پاکستان نہ بننے میں آخری رکاوٹ 23 مارچ،1940 میں قرارداد لاہور کی صورت میں دور کر دی گئی ۔ آپ جانتے ہیں یہ قرارداد کس نے پیش کی تھی؟ یہ تھے شیرِ بنگال اے کے فضل الحق ۔ یہ بھی بنگالی تھے جو متحدہ بنگال کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ حسین شہید سہروردی بھی متحدہ بنگال کے وزیر اعلیٰ رہے۔ 1949 میں مقبول جماعت عوامی لیگ بنائی جس کے جوائنٹ سیکرٹری شیخ مجیب الرحمٰن چنے گئے۔ وہ مجیب الرحمٰن جو تحریک پاکستان کے ہر اول دستہ کا حصہ ہوتے تھے اور سائیکل پر قائد اعظم اور مسلم لیگ کا پرچار کرتے تھے ۔ وہی مجیب الرحمٰن جس نے 1965 کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کا بھر پور ساتھ دیا ۔
اس الیکشن میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے پہلی دھاندلی کی شروعات ہوی ۔فاطمہ جناح الیکشن کی کمپین کے لئے ڈھاکہ پہنچی تو لاکھوں بنگالیوں نے ٹرین کا استقبال کر کے عوامی ریفرنڈم سنا دیا۔ الیکش محترمہ کو ہروا دیا گیا اور ساتھ میں غداری کا تمغہ بھی عطا کیا گیا۔ وہ تمغہ محترمہ کے ساتھ ساتھ بنگالیوں کو بھی ملا۔
اٹل بہاری واجپائی یادگار پاکستان پر آ کر پاکستان کو تسلیم کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں اپنے گناہوں کی معافی بنگالیوں سے مانگتے ؟ کون شخص جو نصاب سے تاریخ مٹانے کے عزم پہ پہرہ دیے کھڑا ہے ؟آخر کتنی؟تاریخ مٹاؤ گے؟ کب تک مٹاو گے۔
الیکشن سے نکلے تو جنگ ستمبر سر پر آن پہنچی۔ اس جنگ میں بنگالیوں کو ہندوستان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔جنگ کا اختتام ہوا تو یہ نعرہ کھوکھلا ہو چکا تھا ۔ کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی محاذ سے کیا جائے گا۔ معاہدہ تاشقند کے بعد جنرل ایوب خان کا تخت چھوڑنا لگ بھگ طے ہو چکا تھا۔ لیکن انہوں نے رسوائی کا ایک اور طوق اپنے حصے میں ڈالنا افضل جانا۔ موصوف کھلے عام کہا کرتے تھے کہ پاکستان کی عوام اتنی باشعور نہیں کہ انہیں ووٹ اور جمہوریت کا حق دیا جا سکے۔ ایوب خان خود تو چلے گئے لیکن جاتے جاتے یحییٰ خان کو مسلط کر گئے۔
رہی سہی کسر یحییٰ خان نے پوری کی ،1970 میں الیکشن کرایا گیا۔ عوامی لیگ اکثریت حاصل کر چکی تھی مگر اقتدار مجیب الرحمٰن کے حوالے نہ کیا گیا خود کے اقتدار کو طول دینے کے لئے مشرقی پاکستان میں ناکام فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا۔ بنگال کی عوام کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ اب بنگالی کھلے عام پاکستان سے نفرت کا اظہار کرنے لگے تھے۔ مکتی باہنی مضبوط ہونے لگی تھی لیکن مجیب الرحمان اب بھی سب کچھ سمبھالنے کے لئے تیار تھے ، وہ خود کو پاکستانی کہ رہے تھے۔
لیکن یحییٰ خان کسی طور اقتدار شیخ مجیب کو سونپنے کے لئے تیار نہیں تھے بلکہ انہیں اگرتلہ سازش کیس میں نازک وقت میں جیل میں ڈال دیا۔ ہندوستان جو موقع کی تاک میں بیٹھا تھا جنگ میں کود پڑا اور محکوم بنگالیوں نے کھلے عام ہندوستانی فوج کی مدد کی ، اور آخر کار 16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان موجودہ پاکستان سے الگ ہو گیا۔
جو بچھڑ گئے
اے کاش کے ہم 1971 کے 16 دسمبر سے کچھ سیکھ چکے ہوتے تو 2014 کا 16 دسمبر ہمارے حصے میں نہ آتا ۔۔اب ہم چاہیں تو 71 کا داغ نصاب سے نکال پھینک کر دھونے کی ناکام کوشش کر لیں یا پھر 2014 کے 16 دسمبر پر نغمے گا کر بدلہ لے لیں یہ داغ دھوئے سے بھی نہیں دھوئے جائیں گے ابھی تو پچاس سال گزرے ہیں۔ یہ 500 سال تک ہمارا پیچھا کریں گے ۔
کیا یہ بہتر نہ ہوتاکہ ہم جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے بجائے شیخ مجیب کے قدموں میں بندوقیں ڈال دیتے ۔لیکن ہم نے اپنوں سے دغا کر کے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنا افضل سمجھا۔ تحریک پاکستان کے ہر اول دستہ کارکن اور محترمہ فاطمہ جناح کے مخلص ساتھی کو آخر کس نے الگ وطن بنانے پر مجبور کیا؟ کس نے دو قومی نظریہ کو خلیج برد کیا؟
کہاں گیا تھا وہ مغربی محاظ جہاں سے ہم نے مشرق کا دفاع کرنا تھا؟ کون شخص خبریں دیتا تھا امرتسر اور جالندھر فتح ہونے کی کس نے زرد دوست (چین) اور سفید دوست (امریکہ) کی مدد کی نوید ڈھاکہ بھیجی تھی ؟ کس شخص نے حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ آج تک دبا رکھی ہے ؟ کون شخص جو آج تک بنگلہ دیش سے معافی نہیں مانگنے دیتا؟ اگر اٹل بہاری واجپائی یادگار پاکستان پر آ کر پاکستان کو تسلیم کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں اپنے گناہوں کی معافی بنگالیوں سے مانگتے ؟ کون شخص جو نصاب سے تاریخ مٹانے کے عزم پہ پہرہ دیے کھڑا ہے ؟آخر کتنی؟تاریخ مٹاؤ گے؟ کب تک مٹاو گے۔
The author is a Mphil Student of Media and Communication Studies in Bahauddin Zikriya University Multan.