جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی میں پروفیسر کی جانب سے طالبہ کو ہراساں کرنے پر طلبہ کا احتجاج

رپورٹ: ہمنہ سحر

گزشتہ دنوں جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کراچی میں پروفیسر کی جانب سے طالبہ کو جنسی ہراساں کرنے پر  طلبہ سراپا احتجاج ہیں ۔

تفصیلات کے مطابق متاثرہ طالبہ نے اپنی اسائنمنٹ چیک کروانے کی غرض سے پروفیسر منظوراحمد سے رابطہ کیا تو انھوں نے طالبہ سے انکے آفس آنے کو کہا جس پہ جب وہ طالبہ انکے آفس گئی تو پروفیسر منظور احمد نے طالبہ کو فیل کردیا اور پاس کرنے کے لیے اسے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ طالبہ کے شور مچانے پر اس کے باقی ساتھی بھی وہاں پہنچ گئے۔

 

لیٹر میں منظور احمد کو سسپنڈ کرنے کی وجہ یعنی ہیراسمنٹ       کا ذکر نہیں کیا گیا ۔

 

وہاں موجود طالب علموں نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر یہ معاملہ یونیورسٹی کے ڈین کے پاس لے کر گئے جس پر ڈین نے انکی بات سننے سے انکار کردیا۔جس کے بعد طلبہ کی جانب سے احتجاج کرنے پر اس معاملے کا نوٹس لیا گیا۔ 

یونیورسٹی انتظامیہ کا اس پہ موقف ہے کہ ہم نے پروفیسر منظوراحمد کو سسپنڈ کردیا ہے۔ اور اس پہ انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے اس کے برعکس جب ہم نے طالب علموں سے رابطہ کیا تو ان میں سے ایک شخص نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سسپنشن لیٹر میں منظور احمد کو سسپنڈ کرنے کی وجہ یعنی ہیراسمنٹ کی وجہ سے سسپنڈ کرنا نہیں لکھا گیا۔ اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ پروفیسر کو مستقل طور پر یونیورسٹی سے نکالا جائے اور ایک ہراسمنٹ کمیٹی تشکیل دی جائے اور جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوں گے ہم احتجاج جاری رکھیں گے۔

اس حوالے سے جب ہم نے پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کی وومن سیکرٹری ایمن سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ پی ایس سی کے بنیادی مطالبات میں سے ایک ہر کیمپس میں جنسی ہراسانی کی تحقیقاتی کمیٹی کا قیام ہے، جس میں سٹوڈنٹ کا نمائندہ بھی شامل ہو اور میں پی ایس سی کے پلیٹ فارم سے مطالبہ کرتی ہوں کہ جلد از جلد متاثرہ طالبہ کو انصاف دیا جائے۔انھوں نے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کی طالبات سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے کہا کہ جب تک یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ کے مطالبات پورے نہیں کرتی ہم انکے ساتھ کھڑے ہیں۔