آمریت، سامراج اور طلبہ مزاحمت

لکھاری: عمار شہزاد 

جنرل ضیا، ایوب اور مشرف جیسے آمروں کے دور میں طلبہ تنظیموں پر ظلم ڈھائے گئے، اس ظلم کی وجہ یہ تھی کہ اس نوجوان طبقے کو اس دورِ آمریت کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا تھا اور سامراجیت کی موت گردانا جا رہا تھا۔ اِس دور آمریت میں طلبہ تنظیموں کو ملک میں بدامنی جیسے بے بنیاد الزامات لگا کر اور وجہ گردان کر ان پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔

ایسے جھوٹے بیانات جو بلکل بے بنیاد تھے جن کا کوئی وجود نہیں اور ایسے اقدام جو صرف اور صرف اپنی بادشاہت آمریت، سامراجیت کو بچانے اور مضبوط کرنے کے لیے لگائے جاتے رہے جن کے وجود کی کوئی دلیل ہی نہیں تھی، ایسی پابندیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو آپ بخوبی اندازہ لگا لیں گے کہ کس طرح سے یہاں عام لوگوں کے لیے سیاست کے دروازے بند کیے جاتے ہیں۔اور دیکھ سکتے ہیں کہ ان الزامات اور پابندیوں نے ملک کو کس نہج پر پہنچا دیا ہے۔ 1984 میں طلبہ یونینز پر عائد کی گئی یہ پابندی جو تا حال برقرار ہے، ملکی ترقی میں رکاوٹ ثابت ہوئی۔ ان پابندیوں کے پس پردہ من چاہے لوگوں کو خوب نوازا گیا۔ ملک اور اس کی ترقی میں اہم کرادرا ادا کرنے والے نوجوانوں کو قید کر دیا گیا اور ان کی آزادی کو مجروح بنا دیا گیا۔ طلبہ کو بے چارگی کا نشان بنا کے رکھ دیا۔ وہ نوجوان طبقہ جو صحیح اور غلط میں واضح طور پہ فرق کر سکتا ہے، ملکی ترقی کا ضامن طبقہ ملکی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنے والا طبقہ، ان فیصلوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اور شاید پابندیاں لگانے والے تاریخ سے واقف نہیں، جس پر فراز صاحب کا اک خوبصورت شعر یاد آتا ہے جو انہوں نے اپنی اک غزل میں ان آمروں اور سامراجی قوتوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے لکھا۔ ان کا یہ شعر بڑی خوبصورتی سے اک نئے خورشید اور سورج کی نوید سناتا ہے جو ہمشہ اجالوں کی صورت میں ابھرتا رہے گا اور ان جبری قوتوں اور سامراجیت کو رد کرتا رہے گا۔ 

 

 کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے

تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے  

 

ایسے نظام کے حامی آمرؤں کے فیصلوں نے پاکستان کے نوجوان طبقے کی صلاحیتوں کو ختم کرنے میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا۔ نوجوان کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں، ملک میں ترقی کے ضامن ہوتے ہیں اور سب سے اہم ملک کی ترقی خوشحالی ،اور مستقبل کی بنیادیں اسی نوجوان طبقے سے جڑی ہوتی ہے۔

 ایسے بے بنیاد الزامات کے نتائج سے ملک کا ہر شہری آج بہ خوبی واقف ہے۔ان کے نتائج نے آج ملک کو کس نہج پر لا کر چھوڑ دیا ہے۔ان چیزوں کا بڑے وسیع پیمانے پر اعداد و شمار کیساتھ اندازہ کیا جا سکتا ہے اور ان فیصلہ ساز قوتوں کی دُور اندیشی بھی بَھانپی جا سکتی ہے۔ 

 تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں تو نوجوان طبقہ چاہے وہ کسی بھی خِطے کا ہو یا کسی بھی قوم کا ہو ان قوتوں کے خلاف بڑا کلیدی کردار ثابت ہوتا رہا ہے اور ایسے تاریخی حقائق سے کوئی بھی ناواقف نہیں۔ ہر دور کی ایسی جبری اور سامراجی پابندیوں پر نوجوان طبقہ کبھی بھی زیادہ دیر خاموش نہیں رہا اور حق اور باطل کے درمیان فرق کرکے اس جستجو کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

یہ طبقہ ایسا روشن چراغ ثابت ہوتا ہے جو اپنی لُو کو بڑھاتے چلا جاتا ہے۔ جہاں نوجوانوں پر مظالم ڈھائے جاتے رہے ہیں ان کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں جاتی رہی ہیں۔ ان سے بولنے کا حق چھینا جاتا رہا ہے۔وہ نوجوان بدستور اپنی علمی قلمی فکری جنگ کو ہر مقام پر لڑتے رہے ہیں ۔

ایسے ہی آمریت زدہ حالات کی کشیدگی میں اس سامراجی نظام کو رد کرنے کے لیے اس ملک اس سر زمین پاک کے مختلف شہروں میں مختلف نوجوان اپنے بیانیہ پر سرگرم ہوئے اپنی اس آواز کو مختلف جگہوں ، طریقوں سے ہر سامراجی قوت تک ایوانوں تک پہنچاتے رہے ہیں۔ اور ان مشکل حالات میں آج سے کچھ عرصہ پہلے 2016 میں لاھور اور ملک بھر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے اک نئی جدوجہد کا سفر شروع کیا اک ترقی پسند سوچ کا سفر سامراجیت کے خاتمے کا سفر آمریت کے خاتمے کا سفر۔ان نوجوانوں نے طلبہ کے حقوق کی آواز پر ایسی ہی ایک طلبہ مزاحمتی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو ہے۔ یہ سفر انتہائی مشکلات کا سفر تھا یہ سفر خاروں سے لیس راہوں کا سفر تھا مگر امید تھی اک نئی صبح کی اک نئی کرن کی جو ان نوجوانوں کو آپس میں جوڑ کر چلا رہی تھی۔ اک ایسا نظریہ اک ایسی فکر جو غریب امیر میں تفریق کئے بغیر مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو ظالم کے ظلم کے خلاف ایک آہنی دیوار بن سکے ۔ جس کا بنیادی نظریہ و فکر بغیر کسی رنگ و نسل کی تفریق کے طالب کے حقوق پر آواز اٹھائے اور مسائل میں گھیرے طالب کے حل پر اکٹھے ہو، امیدِ نو ثابت ہو۔

یہ تنظیم اس منفرد بیانے پر انتہائی مختصر عرصے میں ترقی کے اس مقام تک پہنچی جو شاید کسی کے وہم گمان میں بھی نا ہو۔ اس تنظیم نے بڑے احسن انداز سے اپنے بیانیہ کو لوگوں اور سامراجی قوتوں کے کانوں تک پہنچایا اور اس کا سفر جاری و ساری چلتا جا رہا ہے۔ ہر دور اور مشکل گھڑی میں تنظیم کے لوگوں نے اپنی تربیتی اور نظریاتی پہلو کا مظاہرہ کرتے ہوے تنظیم کے معاملات کو رکنے نہیں دیا اور یہ عزم ہی آج اس کے چلتے اور ترقی کرتے وجود کا ثمر ہے۔ 

مشکلات ہی تو وہ امر ہے جو تنظیموں کو نظریاتی طور پر مضبوط اور موثر کرتی ہے کیونکہ ہر تنظیمی رکن کا عزم ہوتا ہے کہ ہر مشکل دور میں آمریت اور سامراجیت کے خلاف اپنے حقوق کی جنگ کو لڑنا اور اپنے حقوق کو حاصل کرنا اولین فرائض رہیں۔ مشکل ادوار اور بحران ہی کارکنان کی فکری صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتے ہیں اور نظریاتی لائن کو وضح کرتے ہیں ۔

وہ عزائم جن کی خاطر اس مشکل دور میں جب سامراجیت آمریت کا جنون سر چڑھ کے بولتا تھا نوجوانوں نے اس جنون کو رد کر کے یہ قدم اٹھایا۔ آج پھر اس مشکل گھڑی اس بحران میں ہمیں وہ ہی فکر وہ ہی سوچ دوبارہ دیکھانے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ یہ جنگ ہزاروں نوجوانوں کی جنگ ہے جو اس سامراجی استحصال سے تنگ آچکے ہیں۔

ایسے بحرانوں سے جدوجہد رک نہیں سکتی وہ عناصر جو اس جدوجہد کو چلتا نہیں دیکھ سکتے یہ ان سامراجی قوتوں ان عناصر کے منہ پر زور دار تمانچہ ہے۔ نوجوان کا ماضی بھی بے داغ رہا ہے مستقبل بھی بے داغ رہے گا اس کو داغ دار کرنے والے نست و نابود ہو چکے۔ نہ سفر کی مشکلات اور نہ ریاستی جبر ان امنگوں کو ختم کر سکتی ہے۔ یہ امنگیں کسی نا کسی صورت میں ابھرتی ہی رہی ہیں۔ مشکلات تو صلاحیتوں کو تراشنے میں اہم کردار اداکرتی ہیں۔یہ جدوجہد جاری رہے گی۔ اپنے اس کالم کا اختتام احمد فراز صاحب کے چند اشعار پر کرنا چاہوں گا کہ 

میرا قلم نہیں اس دزدِ نیم شب کا رفیق

جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے

میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی

جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے

میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی 

جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے