خطرے میں اسلام نہیں

روز اول سے ہر فرعون کے لیے موسی اور یزید کے لیے حسین (رضی) کھڑا ہوتا رہا ہے. لینن اور ماؤ آتے رہے. ناحق زوال پذیر ہوتارہا۔ انقلاب روس،فرانس اور چین رکاوٹ کی ہی مثال ہیں.لیکن بسا اوقات سازباز ،کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت بھی کام چلا, جن کو بعد میں آزادی ،مذھبی تعلیمات اور انقلاب کاشاخسانہ قرار دیا گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد ،۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کےبعد انگریزوں کا برصغیر پر کلونیل ازم کے روپ میں باضابطہ قبضہ ہوچکا ہے ۔انگریز ڈنکے کی چوٹ پر بغاوتوں کا گلا گھونٹ رہے ہیں, ہر طرف رہزنی ، لوٹ مار کا بازار اسی قوم نے گرم کیا ہے جو زمانے میں اپنی دیانت داری اور ترقیاتی کاوشوں کے بل پر معروف ہے۔ نوآبادیاتی نظام یعنی کلونیلازم ہی انگریز کا برصغیر پر مسلط کردہ عذاب ہے جس کو مذہبی اختلافات نے ہوا دی ہے۔ یہاں یہ سوال قابل غور ہے کہ بت پرستی اور ہندو ازم کا شمار دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں ہونے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کا صدیوں تک برصغیر میں اکٹھا رہنے کے بعد کس منطق سے مذہبی اختلافات کو جنم دیا گیا ؟ 

مغل ادوار میں ہولی، دیوالی اور بیساکھی سمیت غیر مسلموں کے بیشتر تہوار شاہی دربار میں منائے جاتے تھے اور غیر مسلم مکمل جوش و جذبے سے اسلامی تہواروں میں شرکت کیا کرتے تھے تو دو قومی نظریے کو تقویت کن عوامل کے تحت ملی؟ دراصل Religious Revival ہی انگریز کا اصل اور ملحق وار ہے جس کو مستقل اور دیر پا اسلحے کے طور پے بروئے کار لایا جارہا ہے ۔ کوئی ہندو ،کوئی سکھ، کوئی مسلمان،کوئی عیسائی، اس ضمن میں فرقہ واریت کو بھی ہوا دی گئی۔بہرحال ،وقت گزرتاگیا کانگریس کا قیام، پہلی جنگ عظیم ،مسلم لیگ کا قیام،سرسید ،گاندھی ،محمد علی جناح ،تحفظ خلافت ،اور دوسری جنگ عظیم قابل ذکر دوسری جنگ عظیم اسی کڑی کے سرے ہیں۔ 

پہلے یہاں ایک اور سوال قابل ذکر ہے کہ روس ،چین اور فرانس میں انقلاب آیا کیا وہاں یہ منطق پیش کی گئی کہ ملک بہت بڑا ہے لوگوں کو مذھب ، فرقے ،رنگ ونسل کے امتیازات کی بنا پر تقسیم کر دیا جائے یا انہوں نےمل کر کیپٹلسٹ، امپیریل لسٹ اشرافیہ اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کو فوقیت دی؟

 ہم نے دوسرے کی بجائے پہلا راستہ اپنایا اور اپنے آپ کو مذھب کے نام پر تقسیم کروایا۔ دیکھا جائے تو مسلم لیگ پہلا الیکشن ہاری کیونکہ اس میں مذھب نہیں تھا اور دوسرا مذھبی ٹکٹ کے ذریعے جیتی ۔

 (۱۹۵۷) کراچی میں مسلم لیگ کے اجلاس کے دوران ایک شخص حاضرین میں سے اچانک اٹھ کھڑا ہوا اور جناح کے خطاب کو روک دیا،

چیخ چیخ کر ہم لوگوں کو کہتے رہے ہیں پاکستان کا مطلب کیا، “لا الہ الا اللہ۔” جناح نے جواب دیا: “بیٹھو۔ “نہ ہی میری ورکنگ کمیٹی، نہ مسلم لیگ کی کونسل اور نہ ہی میں نے کبھی ایسی قرارداد پاس کی ہے جس میں میں نے یہ عہد کیا ہے؟۔”

پاکستان کے لوگوں سے چند وٹوں کے لیے تم یہ نعرہ لگاسکتے ہو۔

(Book Name :The Pakistan Anti Hero)

دوسری جنگ عظیم میں مسلم لیگ نے انگریزوں کا ساتھ دیا جس بنا پر ہم کو پاکستان دینے کا وعدہ کیا گیا قائداعظم نے اسلامی لبرل (سیکولر)ملک بنانے کی کوشش کی ۔۱۹۴۷میں پاکستان علیحدہ ہوا ۔اور ۱۹۵۶تک ایک لبرل ملک رہا ۔اس کے بعد قرادار مقاصد میں پاکستان کا سرکاری مذھب اسلام قراردیا گیا ۔بہرحال ،پاکستان اگر بننا ضروری تھا تو اس کو مذھبی رنگ کے ساتھ معرض وجود میں نہیں آنا چاھیےتھا ۔یہی وجہ ہے کہ آج لاکھوں کی تعداد میں مسلمان مذھب کے نام پر ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہا ہے اور پاکستان کی سیاست میں مذھب بلکہ مذھبی رنگ نمایاں ہے اور عام لوگ اپنے آباواجداد کی طرح اس کا نشانہ بنتے آرہے ہیں۔ 

لیڈر جب آنسو بہا کر لوگوں سے کہتے ہیں کہ مذہب خطرے میں ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے، اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ لیڈروں کا ہے جو اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لئے مذہب کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔اور سعدت حسن صاحب کے اس قول کو یاد رکھا جائے ۔یگانگت واتحاد ،پیوستہ شجر سے امید بہار ، یقین، حوصلہ اور بھرپور سیاسی شعور سے زندگی گزاری جائے ۔

خطرہ ہے زرداروں کو

گرتی ہوئی دیواروں کو

صدیوں کے بیماروں کو

خطرے میں اسلام نہیں

ساری زمیں کو گھیرے ہوئے ہیں آخر چند گھرانے کیوں

نام نبی کا لینے والے الفت سے بیگانے کیوں

خطرہ ہے خونخواروں کو

رنگ برنگی کاروں کو

امریکہ کے پیاروں کو

خطرے میں اسلام نہیں

آج ہمارے نعروں سے لرزہ ہے بپا ایوانوں میں

بک نہ سکیں گے حسرت و ارماں اونچی سجی دکانوں میں

خطرہ ہے بٹ ماروں کو

مغرب کے بازاروں کو

چوروں کو مکاروں کو

خطرے میں اسلام نہیں

امن کا پرچم لے کر اٹھو ہر انساں سے پیار کرو

اپنا تو منشور ہے جالبؔ سارے جہاں سے پیار کرو

خطرہ ہے درباروں کو

شاہوں کے غم خواروں کو

نوابوں غداروں کو

خطرے میں اسلام نہیں

بقلم : عبدالرحمن رحمانی طالبعلم پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاھور۔