Interview with Zareef Baloch Chairman BALOCH STUDENTS ORGANIZATION on the history and ideology of BSO and current issues faced by students

Interview with Zareef Baloch Chairman BALOCH STUDENTS ORGANIZATION on the history and ideology of BSO and current issues faced by students

Ali Raza

س: سب سے پہلے تو آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیے
ج: میرا تعلق ضلع کیچ کے گاؤں بولیدہ سے ہے اور میں نے بی بی اے
کیا ہے اور اب میں شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کراچی سے
ایم بے اے کر رہا ہوں

س: یہ تو الگ فیلڈ ہے عموما ایسے مضامین پڑھنے والے سیاسی معاملات میں نہیں پڑتے آپ نے یہ راہ کیوں چنی؟
ج: بالکل ایسا ہی ہے عام طور پر ایسے مضامین کے طالب علم سیاسی معاملات میں دلچسپی نہیں رکھتے یا بہت کم رکھتے ہیں لیکن بلوچستان کا تناظر مختلف ہے میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے جنگی حالات، محرومیاں اور ان کے ختم کرنے کے لیے مسلسل سیاسی جدوجہد دیکھی ہے کیونکہ ان سب محرومیوں کا تعلق سیاست سے ہے اس لیے بلوچستان کے ہر شہری کا سیاست میں دلچسپی رکھنا نا گزیر ہے۔
میں نے باقاعدہ سیاسی اور سماجی مضامین تو نہیں پڑھے لیکن اس حوالے سے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے میرے لیے ایک درسگاہ کا کردار ادا کیا ہے
س: بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ماضی میں کئی دھڑے سامنے آتے رہے ہیں آپ کس دھڑے کے چیرمین ہیں؟
ج: ستر کی دہائی میں جب بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے کام شروع کیا تو پہلی دفعہ بلوچستان کی سیاست وڈیروں اور جاگیرداروں کے ڈیروں سے نکل کر عام آدمی تک آئی اور پھر بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اتنی مضبوط ہو گئی کہ کسی بھی تحریک کے لیے سیاسی جماعتیں
بی ایس او کی طرف دیکھ رہی ہوتیں تھیں۔
نا صرف طلبہ بلکہ عوام میں بھی اتنی زیادہ مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ریاستی انجنیئرز اور وڈیروں نے اس مقبولیت کو اپنے غلبہ کے لیے خطرہ جانا اور بی ایس او کو توڑنے کی کوشش کی لیکن ان چھوٹے موٹے دھڑوں سے بی ایس او کو کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ نظریاتی سیاست موجود تھی لیکن 90 کی دہائی میں جب پوری دنیا میں نظریاتی سیاست زوال کا شکار ہوئی تو اس کے اثرات بی ایس او پر بھی ہوئے اور ہمارے طلبہ رہنمائوں نے سیاسی جماعتوں سے تعلقات بڑھا لیے دوسری تقسیم مشرف کے آپریشن کے نتیجے میں سامنے آئی جب بی ایس او کے بہت سے کارکنان نے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کر لیا۔
اب ایک طرف پہاڑ تھے اور ایک طرف پارلیمنٹ، دونوں صورتوں میں طلبہ کیمپس سے یعنی تعلیم سے دور ہو گئے اس صورتحال میں ہم نے بی ایس او کے حقیقی منشور کی طرف واپسی اختیار کر کے درمیانی راستہ نکالا۔ یہ بی ایس او کوئی دھڑا نہیں بلکہ حقیقی بی ایس او ہے جس کی بنیادی ستر کی دہائی میں رکھی گئی تھی۔

س: تاثر تو یہ ہے کہ بی اس او ایک قوم پرست تنظیم ہے لیکن آپ نے جس طرح وڈیرہ شاہی کا ذکر کیا یہ تو اشتراکی سوچ ہے۔ بی ایس او کا منشور ہے کیا؟ ذرا اس کی وضاحت کریں
ج: جی بالکل یہ درست ہے کہ ہماری تنظیم بلوچ طلبہ پر ہی مشتمل ہے لیکن ہم تنگ نظر قوم پرست نہیں بلکہ ترقی پسند نظریات کے حامل ہیں اور طبقاتی جدوجہد تو ہمارہ طرہ امتیاز رہی ہے۔ بی ایس او اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ استحصال صرف علاقہ یا قوم کی بنیاد پر نہیں طبقہ کی بنیاد پر بھی ہو رہا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ طبقاتی استحصال ختم کیے بغیر کسی استحصال سے آزادی کا انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں۔
ہم صرف پسے ہوئے بلوچوں کےحقوق کے لیے ہی آواز نہیں اٹھاتے بلکہ دنیا میں جہاں بھی ظلم ہو ہم مظلوموں کے لیے آواز اٹھاتے ہیں اور اس راہ میں ہمارے کئی کارکنان نے جان کی قربانیاں بھی دی ہیں۔ مثال کے طور پر جب ضیاالحق دور میں اومان کے بادشاہ نے اپنے اقتدار کے لیے عوام کو کچلنے کیلئے ضیاالحق سے عسکری مدد لی تو بی ایس او نے اس کے خلاف مزاحمت کی جس کی پاداش میں ہمارے ایک ساتھی
حمید بلوچ کو عدالت سے بے گناہ قرار دیے جانے کے باوجود پھانسی دے دی گئی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد تنظیم کے اندر بھی طبقاتی سوچ میں زوال دیکھا گیا لیکن یہ اثرات تو پوری دنیا میں دیکھے گئے تھے لیکن بنیادی طور پر ہم طبقاتی سیاست ہر یقین رکھتے ہیں
اور انھی طبقاتی جدوجہد کی وجہ سے سیاسی جماعتیں جن پر وڈیروں کا غلبہ ہے بی ایس او کو توڑنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔
س: اگر ہم موجودہ حالات کی بات کریں تو پورے پاکستان میں ہی طلبہ مختلف مسائل پر احتجاج کر رہے ہیں لیکن سب سے زیادہ احتجاج بلوچستان میں دیکھا گیا اس کی کیا وجہ ہے؟
ج: بلوچستان میں زیادہ احتجاج کی وجہ زیادہ محرومیاں ہیں۔ آج کے دور میں شائد لوگوں کو مذاق لگے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ تو دور کی بات ہے بلوچستان کے زیادہ تر علاقوں میں عام کال کے لیے بھی نیٹ ورک نہیں۔ کچھ علاقوں میں انفراسٹرکچر نہیں اور کہیں سیکیورٹی مسائل کے نام پر بند کر دیا گیا ہے۔ لیکن ان حالات کو سمجھے بغیر آن لائن کلاسز کا آغاز کر دیا گیا جس کا مطلب بیشتر طلبہ کا تعلیم سے محروم ہونا تھا
دوسرا مسلئہ فیس کا تھا کرونا وائرس کے باعث بند ہونے والے کاروبار نے اکثریت کے لیے جینا مشکل کر دیا ہے ایسے حالات میں فیس دینا طلبہ کے لیے ممکن نہیں۔ بلوچستان کے لوگ پہلے ہی تعلیم سے محروم ہیں اس لیے یہ سارے احتجاج دیکھنے میں آئے۔
س: انفراسٹرکچر تو سب کیلیے مسلئہ ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ بلوچ خواتین کی تعلیم میں ثقافت بھی بہت بڑا مسئلہ ہے؟
ج: یہ تاثر درست نہیں اگر موجودہ تناظر میں ہی دیکھیں تو تعلیم کے لیے اگر خواتین طلبہ نے سب سے زیادہ جدوجہد کی ہے تو وہ بلوچ خواتین نے کی ہے پورے ملک میں اور کہیں بھی خواتین طلبہ سڑکوں پر نہیں آئیں سوائے بلوچستان کے۔ اس سے ہی آپ اندازہ لگا لیں۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ بلوچ پسماندہ ذہن رکھتے ہیں خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں لیکن ہماری خواتین جب مردوں کے شانہ بشانہ تعلیم کے لیے نکلیں تو انھیں جس طرح کوئٹہ کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور پھر تھانوں میں بند کیا گیا وہ ساری دنیا دیکھ چکی ابھی بھی انٹرنیٹ پر وڈیوز موجود ہیں۔ اور پچھلی دو دہائیوں سے تو سیاسی جدوجہد مردوں سے کہیں زیادہ بلوچ خواتین نے کی ہے اور ہمیں ان پر فخر ہے۔
اس سارے پس منظر کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے علاقوں کی نسبت بلوچستان کی خواتین سیاسی اور سماجی طور ہر زیادہ ایکٹیو ہیں۔
لیکن انتہا پسند سوچ ہر جگہ موجود ہوتی ہے جو کہ کچھ حد تک یہاں بھی ہے جس کی وجہ عرب ثقافت کا اثر ہے اور اس انتہا پسندی میں مزید حصہ ضیاالحق کی مرہون منت ہے۔
س: آپ نے کوئٹہ میں جن گرفتاریوں کا ذکر کیا یہ ذرا تفصیل سے بتائیے گا۔
ج: 24 جون کو طلبہ کوئٹہ میں انٹرنیٹ کی بہتری اور فیس کو ختم کرنے کے مطالبات پر پرامن احتجاج کر رہے تھے جس پر پولیس نے دھاوا بول دیا اور 80 سے زائد طلبا و طالبات کو گرفتار کر لیا گیا۔ جب اس گرفتاری کے خلاف ملک بھر کے طلبہ نے احتجاج کا اعلان کیا تو وزیر اعلی بلوچستان کی مداخلت پر مطالبات کے پورا کرنے کی یقین دہانی کے ساتھ ہمیں رہا کر دیا گیا۔
س: تو کیا وہ مطالبات پورے ہوئے ؟
ج: جی نہیں ان میں سے ایک مطالبہ بھی پورا نہیں ہوا۔ وزیراعلی نے ایک کمیٹی بنا دی جو ابھی تک طلبہ کو کوئی ریلیف نہیں دے سکی۔
فیس اور آن لائن کلاسز کا مسلئہ تو پہلے سے تھا لیکن اب بلوچستان کے طلبہ کے ساتھ ایک اور زیادتی یہ ہو رہی ہے کہ دوسرے صوبوں کی جامعات میں بلوچ طلبہ کے لیے مختص کوٹہ اور سکالرشپس ختم کی جارہی ہیں جیسے کچھ دن پہلے بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے کی ہے۔
س: 2008 میں جب یہ کوٹہ دیا گیا تھا تو کہا گیا تھا جب تک بلوچستان کا تعلیمی ڈھانچہ بہتر نہیں ہوتا تب تک یہ کوٹہ دیا جا رہا ہے تو کیا ابھی تک بلوچستان کے تعلیمی ڈھانچہ میں کوئی بہتری نہیں آئی؟
ج: بہتری کا اندازہ آپ انٹرنیٹ سے ہی لگا لیں باقی اگر ڈھانچہ کی بات کریں تو 2 یونیورسٹیاں اور کچھ کالجز بنائے گئے ہیں لیکن ان میں سے کچھ کی تو صرف بلڈنگ موجود ہے اور جن میں تعلیم کا آغاز کر دیا گیا ہے وہاں کا معیار انتہائی ناقص ہے۔
آپ ان تعلیمی مسائل کے حل کے لیے کیا تجاویز دیں گے؟
بلاشبہ پہلا کام تو پورے پاکستان کے تعلیمی بجٹ میں اضافہ ہے لیکن مسلئہ یہ ہے کہ جو بجٹ پہلے سے مختص ہے اس میں سے بھی بیشتر بدعنوانی کی نظر ہو جاتا ہے۔
ان دونوں مسائل کا حل طلبہ یونین ہے طالب علم ہی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر کے تعلیم بجٹ میں اضافہ کروا سکتے ہیں۔
اور انتظامی کمیٹیوں میں طلبہ کی نمائندگی ہی بدعنوانی کو بھی ختم کر سکتی ہے۔
اس لیے طلبہ یونین کی بحالی سب سے ضروری ہے جو کہ کوئی حکومت اپنے آپ نہیں کرے گی۔ بلکہ طلبہ کو اس کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی
اس لیے میں تمام طلبہ سے گزارش کرتا ہوں کہ اس اہم معاملہ پر متحد ہو جائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *