سوشل میڈیا ہیٹ سپیچ اور بیروزگار نوجوان

گزشتہ چھے مہینے سے ہم مختلف مذہبی اور جنسی طور پر اقلیتی گروہوں کے خلاف سوشل میڈیا پر ہونے والے نفرت انگیز مواد کا تجزیہ کر رہے تھے، اور نفرت کے پیٹرینز کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جس میں ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ نفرت انگیز مواد پھیلانے میں پڑھے لکھے نوجوان مولویوں سے بھی آگے ہیں۔ 

دراصل ہوتا یہ ہے کہ جب طلبہ اپنی ڈگری کے آخری سال میں ہوتے ہیں، یا ڈگری مکمل کر لیتے ہیں اور انھیں نوکری نہیں ملتی اور نہ دور دور تک ملنے کے امکانات نظر آ رہے ہوتے ہیں، تو ان کو کوئی عجوبہ تخلیق کرنے کا خیال آتا ہے اور کچھ ہی دیر میں یہ کاروائی مکمل ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ انوکھا عمل ہوتا ہے خود کا سوشل میڈیا چینل۔ یہ بنایا کس لیے گیا ہے اس کا فیصلہ بعد میں ہوتا ہے۔

اب ان میں سے چند تو کوالٹی کام کرنے میں کامیاب رہتے ہیں تاہم اکثریت کے پاس سماجی و سیاسی تعلیمی بیک گراونڈ، ٹیکنیکل مہارت، بہتر آلات اور اچھا سوچنے کے وقت میں سے اکثر چیزیں موجود نہیں ہوتیں لہذا کم محنت اور وسائل سے گڈی چلانے کی کوشش، انھیں شارٹ کٹ پر مجبور کرتی ہے۔ اور اسی صورتحال کے ساتھ زیادہ ویوز لینے کی خواہش انھیں نفرت انگیز مواد پھیلانے کی طرف لے جاتی ہے۔ اور پھر یہ باقاعدگی سے عورت مارچ سیزن، طلبہ یکجہتی مارچ سیزن اور توہین مذہب کے جھوٹے الزامات جیسے سیزن لگانے شروع کر دیتے ہیں۔ 

ان نوجوانوں کے حلیے اور بیک گراونڈ سے کہیں یہ نہیں لگتا کہ یہ خود اپنے بیانیے کے ساتھ “مخلص” ہیں۔ کچھ مجبوری میں یہ کام کر رہے ہوتے ہیں اور کچھ پیسے کی حوس میں، اور کچھ شروع تو مجبوری میں کرتے ہیں لیکن پھر “دولت و شہرت” یا کہہ لیں بدنامی کا مزہ آنے لگتا ہے۔ 

یہ لوگ معاشرے میں کنٹریبیوٹ تو کچھ نہیں کر رہے بلکہ توہین مذہب اور بیرونی ایجنٹ جیسے الزامات اور کردار کشی کر کے درجنوں صحافیوں خاص طور پر خواتین صحافیوں، سیاسی و سماجی حقوق کے کارکنوں، فیمینسٹوں اور مذہبی اقلیتوں کے لیے مستقل درد سر اور بعض اوقات ان کے جان و مال کو شدید خطرے میں ڈالنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ 

ریاست کی جانب سے ان نوجوانوں کے لیے روزگار کا بندوبست اور نفرت انگیز مواد پر سنجیدہ لائحہ عمل بنانا اشد اور فوری ضروری ہے۔ نہیں تو آنے والے دنوں میں سیاسی اور معاشی پالیسیوں کی عدم موجودگی کے باعث سیاست اسی کے گرد رہ جائے گی کہ ایک دوسرے کے گرد نفرت کون زیادہ پھیلا سکتا ہے۔ 

البتہ بتاتا چلوں کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز اور “گستاخانہ” مواد کے گرد ہماری تحقیق میں سامنے آنے والا یہ صرف ایک پہلو ہے آنے والی تحریروں میں باقی عوامل پر بھی بات رہے گی۔