سامراج کے مفادات پہ مبنی عالمی نظام

معاشرہ انسانوں سے مل کر وجود میں آتا ہے اس میں مختلف طبقات ہوتے ہیں۔ان طبقات کی بنیاد انسانوں کے مابین معاشی،مذہبی اور سماجی عدم برابری کے تصور پر قائم ہے۔اسی طرح عالمی سماجی نظام بھی طبقات میں بٹا ہوا ہے۔عالمی نظام میں کور سٹیٹ اور تیسری دنیا کی ریاستیں ہیں۔ لہٰذہ نہ تو معاشرے میں برابری ہے اور نہ ہی عالمی سطح پر ریاستوں میں برابری پائی جاتی ہے۔

عالمی طاقتیں اپنے مفاد کے لیے کمزور ریاستوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتیں اور ان پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے علاوہ ان پر جنگ مسلط رکھتی ہیں تاکہ یہ کبھی انکا مقابلہ نہ کر سکیں۔اسکی ایک مثال یہ ہے کہ صنعتی انقلاب کی وجہ سے کپڑے کی انڈسٹری کو فروغ ملا، مانگ اور طلب میں توازن رکھنے کے لیے زیادہ بڑی اور بھاری مشین کا استعمال عمل میں لایا گیا اور زیادہ خام مال کی ضرورت پڑی۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے امپیریل طاقتوں نے تیسری دنیا کے ممالک کی خودمختاری کا استحصال کیا (جو ایک ریاست کا اہم عنصر ہے ) وہاں سے خام مال درآمد کیا گیا اور اپنا تسلط قائم کرنا شروع کیا۔ 

دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کرنا، وہاں کی پیداواری قوت کو کنٹرول کرنا اور اس منافع سے اپنے ملک کی معیشت کو اور بہتر کرنا بھی ان طاقتوں کا پرانا گرُ ہے۔ کسی بھی ملک کی پیداواری قوت کو کنٹرول کرنا مطلب اس کی سرپلس کو کنٹرول کرنا ہے جس سے امپیریل طاقتوں کو ہی فائدہ ہو اسے پوشیدہ آمدنی کہا جاتا ہے۔جبکہ ظاہری آمدنی میں دو طرفہ تجارت، اقتصادی تعلقات وغیرہ آتے ہیں۔

برطانیہ انیسویں صدی کے وسط میں 30ملین ڈالر ایک سال میں دوسرے ممالک پر خرچ کر رہا تھا جبکہ 1870 سے 1875 تک اسی اعدادوشمار میں اضافہ ہو کر 75ملین ڈالر ہو گیا۔ اسی مفاد کی بنیاد پر 1830 سے 1870 تک برطانیہ نے اوسط 8 ملین ڈالر دوسرے ممالک پر خرچ کیا۔ 1870 کے بعد اس اعدادوشمار میں اضافہ ہو کر اوسط 50 ملین ڈالر ہو گیا۔ یہ برطانیہ کی پوشیدہ آمدنی تھی جو تجارتی پیداوار سے ہٹ کر تھی۔

خام مال کو جلداز جلد امپیریل ریاستوں تک پہنچانا لازم تھا۔ چنانچہ بحری انڈسٹری کو فروغ دیا گیا اور تیسری دنیا کے ممالک میں انفراسٹکچر کا جال بچھایا گیا جس وجہ سے اشیاء جلد مارکیٹ میں دستیاب ہونے لگی۔ ہر سامراجی ریاست نے تیسری دنیا کے ممالک کے وسائل پر قبضہ کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ اشیاء کی پیداوار کریں اور زیادہ منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکیں۔

اس بنا پر تیسری دنیا کے ممالک پر قبضے ہوتے گئے، ان کی منڈیوں پر اپنا تسلط قائم کیا گیا اور ان کے وسائل پر قبضہ کیا گیا۔ 1800ء میں یورپ کےکنٹرول میں دنیا کا 35% رقبہ تھا1878  ء میں یہی رقبہ 67% تک جا پہنچا اور 1914 ء تک 85% سے زائد رقبے پر یورپی امپیریل طاقتوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔

برطانوی ماہر اقتصادیات جیونز نے 1865 میں کہا تھا۔۔

شمالی امریکہ اور روس کے میدانی علاقے ہمارے مکئی کے  کھیت ہیں۔ شکاگو اور اوڈیسا ہمارے غلہ جات ہیں اور بالٹک ہمارے لکڑی کے جنگلات ہیں۔ آسٹریلیا ہمارے بھیڑوں کے فارم ہیں اور ارجنٹائن میں شمالی امریکہ کے مغربی علاقوں میں ہمارےبیلوں کے ریوڑ ہیں۔ پیرو نے اپنی چاندی بھیجی ہے، اور جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کا سونا لندن میں بہتا ہے، ہندو اور چینی ہمارے لیے چائے اگاتے ہیں، اور کافی، چینی اور مسالوں کے باغات تمام انڈیز میں ہیں۔ سپین اور فرانس ہمارے انگور کے باغ ہیں اور بحیرہ روم ہمارے پھلوں کے باغ۔ ہمارے کپاس کے میدان جو طویل عرصے سے جنوبی امریکہ پر قابض ہیں، اب زمین کے گرم علاقوں میں ہر جگہ پھیلائے جا رہے ہیں۔1875 میں برطانیہ دنیا کی تجارت کے پانچویں حصے کا اکیلا ہی ذمہ دار تھا، دنیا کے ایک تہائی سے زیادہ میرین تاجر برطانوی پرچم کے نیچے سفر کرتے تھے۔ 

ہندوستان کا کپڑا برطانیہ کی منڈیوں میں 50 سے 60 فیصد تک بنے ہوئے کپڑے کا مقابلہ میں منافع کے ساتھ بیچا جاتا تھا.اس لیے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اپنی کپڑے کی صنعت کو بچانے کے لئے ہندوستان کے کپڑے پر 70 سے 80 فیصد تک ڈیوٹی لگائی جائے اور کچھ مقامات میں اسے بالکل ممنوع کردیا جائے. اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پیسلی اور مانچسٹر کی ملیں شروع ہوتے ہی بند ہو جاتیں۔ 

اس کا اثر ہندوستان پر تو تباہ کن ہوا ہی لیکن اس پالیسی کے تحت نوآبادیات میں ایسی تمام صنعتوں کو ختم کردیا گیا جو ان کی صنعتوں کا مقابلہ کر رہی تھی. آئرلینڈ نے اونی کپڑا بنانے کی کوشش کی تو برطانوی قانون کے تحت اسے روک دیا گیا۔

یہی سب کچھ آج بھی تیسری دنیا کے ممالک کے ساتھ ہو رہا ہے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان کو غیر صنعتی بنایا جارہا ہے تاکہ یہ ریاستیں خودمختار نہ ہو سکیں۔

اب ان ممالک کو پوسٹ امپیریل پاورز مختلف طریقوں سے کنٹرول کرتی ہیں۔ اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے اپنی حمایتی حکومت اقتدار میں لاتی ہیں، معاشی طور پر نظام ٹیک اُور کرتی ہیں اور اسٹبلیشمٹ کو کنٹرول کرتے ہوئے اپنی لابی قائم کرتی ہیں۔

 

تیسری دنیا کے ممالک اپنی خارجہ پالیسی بنانے میں بھی خودمختار نہیں ہیں اور یہ کام مختلف اداروں (آئی ایم ایف) کی مداخلت کے ذریعے سرانجام دیے جاتے ہیں جبکہ سامراجی طاقتوں کی حمایت یافتہ حکومت لانا بھی انہی میں شامل ہے. ایسے ایسے معاہدے سرانجام دیے جاتے ہیں جن سے ان ممالک کی معیشت کو سختی سے کنٹرول کر لیا جاتا ہے اور اپنے مقاصد پورے کیا جاتے ہیں۔

تیسری دنیا کے ممالک جن کا صنعتی انقلاب کی وجہ سے استحصال ہوا تھا ابھی تک خودمختار نہیں ہو پائے. پوسٹ امپیریل پاورز نئے انداز سے ان ممالک کو کنٹرول کیے ہوئے ہیں اور ابھی تک ان کو اپنے فائدے اور مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *