کیا یہ سچ ہے؟ پوری بات کیا ہے؟ آپ اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایسا ہی ہے؟ آپ کی معلومات کا ذریعہ کیا ہے؟ کیا مجھے یہ خبر آگے پہنچانی چاہیے؟
ایسے سوالات پوچھنے کا ہمارے پاس وقت ہی نہیں۔ ہم کسی بھی خبر کی تصدیق کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ ہم اتنے مصروف ہیں یا یوں کہیے کہ غافل اور بے حس ہیں کہ بنا سوچے سمجھے ہر انفارمیشن اور خبر کو چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہو، نا صرف قبول کرتے ہیں بلکہ بڑے اعتماد سے اپنی پہنچ اور اوقات کے مطابق آگے شیئر بھی کرتے ہیں۔ خاص کر کے ایسی انفارمیشن یا خبر جس میں کسی کی کردارکشی کی گئی ہو، ہمارے لئے انتہائی دلچسپی کی حامل ہوتی ہے کیونکہ دوسروں کے بارے معلومات رکھنا ہمارا مرغوب مشغلہ ہے اور خاص کر ایسے لوگوں کے بارے میں جن سے ہم نفرت یا حسد کرتے ہیں۔
ہم کوئی بھی رائے قائم کرتے ہیں یا کسی بھی صورتحال میں جو ردعمل ظاہر کرتے ہیں اس کی بنیاد اس انفارمیشن پر ہوتی ہے جو کسی بھی ذریعے سے ہم تک پہنچتی ہے۔ دنیا اور لوگوں کے متعلق ہمارا نظریہ انفارمیشن کی وجہ سے ہی تشکیل پاتا ہے، حتی کہ ہمارا اپنے بارے میں بھی نظریہ بدل جاتا ہے؛ اس کی عمدہ مثال فیس بک ہے جہاں آپ اپنے بارے میں کچھ خاص انفارمیشن شیئر کرتے ہیں تاکہ لوگ آپ کے بارے میں ایسا ہی سوچیں جیسا آپ چاہتے ہیں، لوگوں کے آپ کے بارے میں ریویوز آپ کا آئینہ بن جاتے ہیں جس میں آپ اپنا عکس دیکھتے ہیں جو کہ عموماً حقیقی نہیں ہوتا۔
ہم ڈیجیٹل انفارمیشن کے دور میں رہ رہے ہیں اور جھوٹ پر مبنی انفارمیشن ایک وبا کی طرح ہمیں متاثر کر چکی ہے۔ ای میل اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہم کوئی بھی انفارمیشن سیکنڈوں میں ہزاروں لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا ہمارے روز مرہ کے فیصلوں پر بڑی قوت سے اثر انداز ہوتا ہے۔ حتی کہ ڈیجیٹل انفارمیشن کا استعمال کر کے حکومتیں گرائی بھی جا سکتی ہیں اور بنائی بھی جا سکتی ہیں۔ ڈس انفارمیشن کی وجہ سے کئی مرتبہ عالمی سطح پر سٹاک مارکیٹ کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا، کئی ملکوں کے درمیان جنگ سا ماحول بنے رہنے کے پیچھے بھی ڈس انفارمیشن کار فرما رہتی ہے۔ امریکہ کے 2016 کے صدارتی انتخابات میں ڈیجیٹل انفارمیشن کے منفی استعمال پر کئی جریدے لکھے جا چکے ہیں۔ 2021 کے اوائل میں برسلز بیسڈ آرگنائزیشن، ای یو ڈس انفو لیب، نے ایک رپورٹ ”انڈین کرانیکلز“ کے نام سے شائع کی جس میں انڈیا کے پاکستان کے خلاف ڈس انفارمیشن اور پروپیگنڈا کو بے نقاب کیا گیا۔
ڈیجیٹل انفارمیشن سے منسلک دو انتہائی مشکل اصطلاحات منظرعام پر آ چکی ہیں ایک ففتھ جنریشن وار (Fifth Generation War) اور دوسری انفوسفائر (Infosphere)۔ لیکن میرا مقصد ان مشکل اصطلاحات کی وضاحت کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ میں اور آپ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی وجہ سے حکومتیں تو نہیں گرا سکتے مگر اپنی اور دوسروں کی زندگیاں ضرور تباہ کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں پولیو اور کرونا وائرس اور ان کی ویکسین سے متعلق غلط معلومات کا تبادلہ اور پھیلاؤ ڈس انفارمیشن کے معاشرے پر منفی اثرات کی بہترین مثال ہے۔ آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ کس طرح ایک مخصوص طبقے کے خلاف مذہب یا نسل کی بنیاد پر ڈس انفارمیشن کا استعمال کر کے کئی زندگیاں برباد کر دی جاتی ہیں۔ پاکستان میں خاص کر کے بلاسفیمی کی آڑ میں ڈس انفارمیشن پھیلا کر بستیاں، مسجدیں، گرجے اور مندر جلا دیے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی کے نام سے جھوٹی پوسٹ وائرل ہو جاتی ہے جو کہ کسی بے گناہ کی جان لے لیتی ہے۔
2019 میں بدین کی ایک لڑکی نے سوشل میڈیا بلیک میلنگ کی وجہ سے خودکشی کر لی تھی، رپورٹ کے مطابق لڑکوں کے ایک گروپ نے اس کی تصویریں فوٹوشاپ پر ایڈٹ کر کے اسے بلیک میل کرنا شروع کیا، بھاری رقم بٹورنے کے بعد فیک تصویریں اس کے منگیتر کو بھجوا دیں جس کی وجہ سے اس کی منگنی ٹوٹ گئی۔ لیکن اس گھناونے کھیل کا انجام بے قصور لڑکی کی موت کی صورت میں ہوا۔ اگر لڑکی کا منگیتر معلومات کی تصدیق کرتا تو نتیجہ مختلف ہوتا۔ اس جیسے انگنت واقعات ہوتے ہوں گے مگر میڈیا پر رپورٹ نہیں ہوتے کیونکہ ہمارا معاشرہ معلومات کی تصدیق کیے بغیر اپنا ردعمل ظاہر کرتا ہے جو کہ کسی کی موت کا سبب بن سکتا ہے۔ ہم بڑی آسانی سے کسی کے کردار پر کیچڑ اچھال دیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ ہم قاتلوں میں شمار ہو سکتے ہیں۔
انسانی جذبات اور معلومات کی بنیاد حواس خمسہ پر ہے اور دو حواس دیکھنا اور سننا اکثر دھوکہ دیتے ہیں۔ کسی کے خیالات پر حکمرانی کرنے اور انہیں اپنے قابو میں کرنے کے لیے دیکھنے اور سننے کی حس کو استعمال کرتے ہوئے ایک سراب تخلیق کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے دیکھنے اور سننے والا انجانے میں ایک پھندے میں پھنس جاتا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا یہی فارمولا استعمال کرتے ہوئے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں۔
لیکن اگر ہم اپنی رائے دینے یا ردعمل ظاہر کرنے سے پہلے تھوڑی سی محنت کر کے انفارمیشن کا تجزیہ کرنے کی کوشش کریں تو یقیناً ہماری رائے یا ہمارا ردعمل تبدیل ہو جائے گا۔ ہمارے تعلقات چاہے وہ معاشرتی ہوں یا پیشہ ورانہ اگر ہم ظاہری عوامل کی بجائے معاملات اور معلومات کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کریں اور اپنا ردعمل ظاہر کرنے سے پہلے تھوڑا وقت لیں تو ہماری سوچ مثبت سمت میں سفر کرے گی۔
صرف میڈیا ہی غلط معلومات نہیں پھیلاتا، ہمارے اردگرد بھی کئی ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو غلط معلومات کی بنا پر ہمارے خیالات، ردعمل اور رائے پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ہم ایک فریب اور بہکاوے میں پھنس کر ایک منفی رویہ اپناتے ہیں یا آسان الفاظ میں کہیں تو ٹھوکر کھاتے ہیں۔ بعض اوقات ہم خود بھی جھوٹ کا سہارا لے کر لوگوں کے خیالات میں منفی خمیر کی آمیزش کرتے ہیں اور لوگوں کے لیے ٹھوکر کا باعث بنتے ہیں۔ مذہبی اور سیاسی رہنماء اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اکثر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
حضرت عیسی علیہ اسلام کا قول ہے ”یہ نہیں ہو سکتا کہ ٹھوکریں نہ لگیں لیکن اس پر افسوس ہے جس کی وجہ سے لگیں۔“ اگر آپ معاشرے میں ایسا مقام رکھتے ہیں کہ لوگ آپ کی پیروی کریں، آپ کو اپنا رول ماڈل سمجھیں یا آپ کو ایسے وسائل میسر ہیں جن کی بنا پر آپ لوگوں کی زندگیوں، خیالات اور رائے پر اثرانداز ہوتے ہیں تو کوشش کریں کہ آپ کے سبب سے لوگوں کو ٹھوکر نہ لگے۔ جھوٹ کا حصہ نہ بنیں بلکہ ہمیشہ سچائی کا ساتھ دیں اور ایسا کرنے کے لیے آپ کا سچائی جاننا ضروری ہے۔
ہم ڈیجیٹل انفارمیشن کے دور میں مس انفارمیشن یا ڈس انفارمیشن سے بچ تو نہیں سکتے مگر مندرجہ ذیل باتوں پر عمل کر کے اپنی اور دوسروں کی زندگیاں ۔مشکل میں ڈالنے سے بچ سکتے ہیں۔
کوئی بھی انفارمیشن قبول کرنے سے پہلے یہ پتہ لگائیں کہ انفارمیشن کا ماخذ کیا ہے۔ کیا آپ تک انفارمیشن مستند ذرائع سے پہنچی ہے؟ بغیر سوچے سمجھے کوئی بھی انفارمیشن آگے شیئر مت کریں۔ انفارمیشن شیئر کرنے سے پہلے تجزیہ کریں کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں اور اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟
کسی بھی خبر یا انفارمیشن کو شیئر کرنے سے پہلے اپنے طور پر دو یا تین ذرائع سے اس کی تصدیق کریں۔