سیلاب متاثرین میں طلبا مسلسل نظرانداز

دو ہزار بائیس کے تازہ سیلاب سے جہاں پاکستان کے مختلف حصوں میں تباہکاریاں سامنے آئی ہیں وہیں امیر ترین ممالک میں ترقیاں ہورہی ہیں۔ ایک طرف دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک انسان نما روبوٹس کی ایسی فوج تیار کر رہیں ہیں جن سے کمپنی کے اندر مختلف کام لیے جائیں گے جو اس وقت تک انسان کرتا آرہا ہے، تو دوسری طرف بے گھر لوگ کھلے آسمان تلے بے یارومددگار بیٹھے ہیں جو ایک وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہیں۔ ایک طرف تو بیٹری پر چلنے والی گاڑیاں بنائی جارہی ہیں دوسری طرف لوگ سیلابی پانی سے گزرنے کے لیے کشتیوں کے حصول کے لیے پریشان ہیں۔

 

 کیا یہ ناانصافی نہیں؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ کہ کچھ لوگ لاکھوں روپے مالیت کے آئی فونز خرید رہے ہیں تو دوسری طرف لوگ گھروں کی ازسرنو تعمیر کے لیے پریشان ہیں؟

 

پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث کہیں گرمی کی شدید لہریں، کہیں سخت سردی تو کہیں سیلاب آرہے ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان میں آئی بے موسمی بارشوں سے سیلابی ریلوں کا آغاز ہوا جو بعد میں بلوچستان سے تباہکاریاں کرتا ہوا سندھ آن پہنچا۔ سندھ کے مختلف اضلاع اس تباہی سے دوچار ہوئے ہیں۔ بڑی تعداد میں جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ 

گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں سندھ سمیت پورے ملک میں سیلاب کے باعث سات اموات رپورٹ ہوئی ہیں جس میں زیادہ تعداد سندھ میں متاثر ہوئے ان لوگوں کی ہے جو جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس وقت تک کل اموات 1576 سامنے آئی ہیں، زخمیوں کی تعداد 12862 ہے جبکہ تباہ شدہ گھروں کی تعداد 2014275 ہے اور متاثرین کی تعداد 33046329 رپورٹ ہوئی ہے۔ 

اس کے علاوہ سیلابی علائقوں میں وبائی امراض میں تیزی سے رکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں 26 لاکھ 43 ہزارسے زیادہ افراد جلدی امراض، ڈائریا، ملیریا، ڈینگی اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ اس سیلابی صورتحال میں بہت سارے لوگوں نے اپنے وسائل کے تحت امدادی کاموں کو جاری رکھا ہے۔ لیکن یہ سوال وہیں رہتا ہے کہ ہم سب کب اس اذیت سے نکلیں گے اور کیا تباہکاریوں کا ازالہ کچھ عرصے میں ممکن ہے؟ 

ایک نامور صحافی نے معلوماتی ریکارڈ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ کتنے راستے، تعمیرات، اسکولز، ہسپتال اور یادگار مراکز تباہ ہوئے ہیں لیکن یہ ملبہ صرف سیلاب کی وجہ سے نہیں بلکہ ناقص مٹیریل کے استعمال کی وجہ سے تاج برطانیہ کی وہ بلڈنگ جو اس وقت میں تعمیر ہوئی تھی آج بھی کھڑی ہیں۔ انگریزوں کی بنائی گئی تعمیرات مضبوطی سے اسی جگہ قائم ہیں۔ وجہ یہی دریافت ہوتی ہے ان کا کام مہارت اور ایماندار پر مبنی رہا ہو گا اور آج اگر کچھ تباہ ہوا ہے تو وہ تازہ بنائی گئی بلڈنگز ہیں جن کو اتنے عرصے کے لئے بنایا جاتا ہے جبکہ بنانے والے کے خرچے چل سکیں پھر وہ خستہ حال تعمیرات گر جاتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ نااہل انتظامیہ ہے لیکن کیا ان کے آسرے ہم آنے والے وقت کو نظرانداز کردیں؟ 

ہمیں موجودہ حالات میں رہتے ہوئے مستقبل پر نظر رکھنی ہے تاکہ آنے والے دنوں میں لوگوں کو کچھ ریلیف ملے۔ سب سے پہلے تو جن کے گھر گر چکے ہیں ان کے لیے کیا منصوبہ بندی ہے؟ کب تک ان کے گھر بنائیں جائیں گے یا کیا متبادل ان کو فراہم کیا جائے گا؟ جن لوگوں کا نقصان ہوا ہے وہ امداد کے منتظر ہیں لیکن ان میں بھی نقصانات کی نوعیت مختلف ہے۔ کچھ لوگوں پر اپنے تباہ حال گھروں کی ذمیداریاں ہیں وہ گھروں کے بننے اور گھروں کو چلانے کے لئے روزگار کے لئے پریشان ہیں۔ تو کہیں کسان سر جوڑے حسرتوں سے اپنی برباد ہوئی فصلوں پر رو رہے ہیں کسانوں کی پریشانی کی نوعیت الگ ہے جن کے فصل تباہ ہوئے ہیں وہ فصلوں کے لئے پریشان ہیں، خواتین کی پریشانیاں الگ ہیں ان کی صحت، تعلیم اور روزگار کے مسائل کا سامنا ہے۔ جبکہ ایک طبقہ طلبا کا بھی ہے جو اپنے تعلیمی اخراجات کے لیے پریشان ہیں۔ 

اس سیلاب میں تعلیم حاصل کرنے والا مستقبل کا معمار طالب علم طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے خاص طور پر وہ جن کا تعلق دیہاتی علاقوں سے ہے۔ تعلیم کے حصول کے لیے ان کو شہروں میں بھیجا جاتا ہے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر ان کے تعلیمی اخراجات پورے کرتے ہیں جن میں فیس، ٹرانسپورٹ، رہائش سب سے بنیادی ضروریات ہوتی ہیں۔ یہ طلبا سیلاب کے آتے ہی اپنے اپنے پیاروں کی طرف لوٹیں ہیں، مشکل میں پھنسے اپنے گھر والوں کی طرف پہنچے ہیں جہاں اب ان حالات کی وجہ سے وہ ذہنی مسائل کا شکار ہیں۔ ان طلبا کو اسکالرشپس سمیت تعلیم جاری رکھنے کی تمام سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ 

 

یاد رہے اس وقت بھی جامعات میں کلاسز ہورہی ہیں اور طلبا کی حاضری پر زور دیا جارہا ہے۔ جبکہ بڑی تعداد میں طلبا امدادی کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہیں ہیں جن کی حاضری مسلسل متاثر ہورہی ہے۔

 

آئندہ وقت کے لئے کوئی بہتر حکمت عملی پر غور فکر اس وقت سخت ضرورت ہے یہاں یہ بات بلکل بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ دیگر ممالک سے بڑی امداد وصول ہوئی ہے اس کے علاوہ اس ملک کے اندر رہنے والے صاحب استطاعت لوگوں نے بھی امداد کی ہے۔ جس کی وجہ سے کچھ دن تو گزارا ہوسکتا ہے لیکن یہ امید نہیں کرسکتے کہ ایسے ہی وقت گزرتا رہے۔ ہمیں فوری طور پر آنے والے وقت کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

  نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کے بہتر مواقع دیے جائیں اور ترقی یافتا ممالک میں ان کو تعلیم اور روزگار کے مواقع کی سہولیات دی جائیں کیونکہ پاکستانی ریاست موجودہ حالات میں بھی ترقی پزیر ممالک کے سارے اچھے تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں اس وقت معیشت زوال کا شکار ہے اور ایسے اقدام حکومت وقت کے لیے اولین فرض ہونا چاہیے۔ 

اس وقت پسے ہوئے طبقے کے نوجوان بلخصوص طلبا کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ایسا ہونے سے روکا جانا چاہیے کیونکہ یہی طلبا ہمارا آنے والا کل ہیں جنہوں نے سماج میں بہتری کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔

یاد رہے اس وقت بھی جامعات میں کلاسز ہورہی ہیں اور طلبا کی حاضری پر زور دیا جارہا ہے۔ جبکہ بڑی تعداد میں طلبا امدادی کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہیں ہیں جن کی حاضری مسلسل متاثر ہورہی ہے۔