اسیری کے ہزار دن مکمل

سابقہ طالب علم رہنما اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی دلی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم کامریڈ عمر خالد کو مودی سرکار کی جانب سے قید کو 1000 دن مکمل ہو گئے ہیں۔ مودی حکومت عمر کو نشان عبرت بنانا چاہتی ہے مگر وہ انڈیا کے مسلمانوں پر ہونے والے جبر کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بن چکے ہیں۔ 

2016، 2017 میں ہم نے سیاست شروع کی تو وہ مشال خان تھے، جنھوں نے طلبہ حقوق کے لیے جان دے کر، ہمارے مقاصد کا تعین کیا اور ان کو حاصل کرنے کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ڈالی۔ اب ہمارے پاس مقاصد تو تھے مگر حکمت عملی، جدوجہد کے طریقے نہیں تھے۔ ہم نے یہ طریقے سیکھے کامریڈ عمرخالد اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی کے دیگر طلبہ رہنماوں سے (اور آج بھی پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹیو میں جے این یو کے طلبہ کی ثقافتی جھلک نظر آتی ہے)، جو اس وقت انڈیا کی جمعیت یعنی بی جے پی کے سیاسی، سماجی اور معاشی جبر کو للکار رہے تھے۔ اس راستے میں بارڈر کے اس پار اور اس پار کئی ساتھی آئے اور گئے۔ مگر کامریڈ عمر خالد “اپنی گواہی پر قائم رہے“۔ اور وہ اسی کی سزا بھگت رہے ہیں۔

 انھیں مودی کی فاشسٹ حکومت نے ایک ہزار دن سے غداری سمیت نام نہاد دلی فسادات کو ہوا دینے کے الزامات پر 18 جھوٹی دفعات لگا کر قید رکھا ہوا ہے۔ جس میں قتل بھی اکثریت مسلمانوں کی ہی ہوئی تھی۔ 

ایک بار ایک انٹرویو میں ان سے سوال ہوا تھا کہ آپ کتنی مار کھا سکتے ہیں تو عمر خالد نے جواب میں کہا تھا  “آپ مارنے والوں سے پوچھیں وہ کتنا مار سکتے ہیں۔ کیونکہ جتنا مرضی مار لیں ہم ظلم کے خلاف آواز اٹھانا نہیں چھوڑیں گے، وہ کسی صورت ہمیں ڈرا نہیں سکتے”۔ نعرے لگانا، ایسے دعوے کرنا، جیل جانا یہاں تک کہ مرنا اور مارنا بھی آسان ہے مگر مرضی سے مسلسل ظالم سہتے ہوئے اپنے موقف پر ڈٹے رہنا سب سے مشکل کام ہے۔ اور ان کی اس مستقل مزاجی نے انھیں انڈیا ہی نہیں پوری دنیا کی حالیہ تاریخ میں انقلابیوں کے لیے ایک مثال بنا دیا ہے۔ 

اکثر پورا جہاں تو کسی کو ایک نڈر انقلابی کے طور پر جانتا ہوتا ہے، مگر گھر والوں کی نظر میں وہ نکھٹو ہوتے ہیں کیونکہ عام طور پر گھر والوں کو شکایت رہتی ہے، کہ وہ گھر والوں کو وقت نہیں دیتے، گھر والوں کی توقعات پر پورا نہیں اترتے۔ لیکن شاید عمر کی سچائی نے ان کے والدین کو بھی قائل کر لیا ہے۔ ان کے والد اور والدہ اتنے سنگین نتائج کے باوجود اس کے سیاسی موقف کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جو ایک انقلابی کا سب سے بڑا میڈل ہے۔ 

کامریڈ عمر خالد کی مستقل مزاجی کو سرخ سلام

تحریر: علی رضا