مفت تعلیم طلبہ کا بنیادی حق

ورثہ پیرزادو

دنیا کی مختلف ریاستوں میں طلبہ کو تعلیم کے عوض اجرت دی جاتی ہے کیونکہ تعلیم سے انسان ذاتی مفاد سے زیادہ دنیا کے فائدے کے لئے کام کرتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے سے شاگرد اس ایک مضمون میں مہارت حاصل کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ادب کا طالب علم اس مضمون کو پڑھ کر معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ اپنی تحریروں سے سماج کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور منفی رویہ لکھ کر آگہی پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک نفسیات کا طالب علم اس مضمون کا علم حاصل کرکے انسانی رویوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے نہ صرف نفسیاتی بیماریوں کا علاج کرتا ہے بلکہ مسلسل اس میں تحقیق جاری رکھتا ہے۔ اسی طرح تاریخ کا طالب علم ہمیں ماضی کے ادوار بتاتا ہے اور صدیوں پرانی باتوں کے حوالے سے معلومات فراہم کرتا ہے۔ جس کو پڑھ کے ہم ماضی کی غلطیاں اور کوتاہیاں موجودہ دور میں دہرانے سے بچ جاتے ہیں اور ان سے سیکھ کر مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سائنس پڑھنے والے طلبہ نت نئی ایجادات کرکے اور تحقیقات کرکے آنے والی نسلوں کے لئے آرام دہ زندگی تشکیل دیتے ہیں۔

بحرحال ہر مضمون ضروری اور اپنے طور پر اہمیت کا حامل ہے۔
ترقی پزیر ممالک میں غریب طلبہ کو بھاری بھاری فیس ادا کرکے علم حاصل کرنا پڑتا ہے جو حقیقت میں نا انصافی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں طلبہ کو اجرت دے کر علم حاصل کرنے کی طرف راغب کیا جاتا ہے جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ہمارا ملک اس وقت بھی غریب ممالک میں شمار ہوتا ہے کیونکہ یہاں غربت کی شرح زیادہ ہے۔ ہمارے ملک میں اصولی طور پر یونیورسٹی تک کی تعلیم مفت ہونی چاہیے تاکہ ملک کی ابتر صورتحال کو تعلیم کے زریعے بہتر کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ مگر افسوس یہاں علم ہی نظر انداز ہوتا آرہا ہے۔ یہاں لوگ صرف کاروبار کرنے اور کمانے کی سوچ میں مصروف ہیں۔ تقریبا تمام لوگوں کا خواب جلد از جلد دولت جمع کرنا بن گیا ہے۔ تعلیم سے عوام کو دور رکھا گیا ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ جیسے اگر سیاست کے پس منظر سے دیکھیں تو تعلیم حاصل کرنے کے بعد باشعور شہری اپنے سامنے ہونے والے غلط کام پر سوال کرے گا اور غلط کام کرنے والے کے لئے مسئلہ بن جائے گا۔ اس لئے وہ طاقتور یا بااثر شخص کبھی نہیں چاہے گا کہ غریب علم حاصل کرکے مجھ سے سوال کرے۔ دوسری وجہ نا اہلی ہے جیسے کچھ طاقتور لوگ چاہتے ہیں کہ بے شعور عوام علم حاصل کرے تو وہ عملی طور پر اس میں کام کرنے سے سستی کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اس مسئلے پر بات تو کرتے ہیں لیکن عملی طور پر اس پر کام کرنے سے لاچاری ظاہر کرتے ہیں۔ خود ہر سہولت ہونے کے بعد انہیں دوسروں کے لئے جدوجہد کرنا مشکل کام لگتا ہے۔ اس صورتحال میں طلبہ خود مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس امید سے کہ آخرکار ان کی جدوجہد رنگ لائے گی اور وہ معیاری تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سرکاری اسکول قائم کیے گئے ہیں جہاں طلبہ مفت تعلیم حاصل کرسکتے ہیں لیکن وہاں بھی نصاب سے لے کر غیر نصابی سرگرمیوں کے لئے پیسے لئے جاتے ہیں۔ کالجز میں بھی کئی سرکاری کالجز ہیں جہاں پریکٹیکل سمیت اسائنمنٹ جمع کرانے کے لئے یا پھر کاغذات جمع کرانے کے لئے اور امتحانات کے لئے پیسے دیے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ سندھ میں ان چیزوں کی فیس بند کرنے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا لیکن اس کے باوجود نظام کی خرابی کے سبب فیس وصول ہوتی رہی اور پھر یہ حال ہے کہ کچھ سرکاری کالجز میں فیس لی جاتی ہے اور کچھ میں فیس نہیں لی جاتی۔ اس کے بعد یونیورسٹی میں تو غریب طالب علم پڑھ ہی نہیں سکتا۔

یونیورسٹی صرف ان غریب شاگردوں کے لئے ہے جو محنت مزدوری کرکے اپنی فیس ادا کرنے کے قابل ہوں۔ جو بے روزگار ہیں یا مقرر فیس ادا کرنے کے قابل نہیں وہ صاف صاف تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم کیے جاتے ہیں۔

ہمارے نوجوان اتنے قابل ہوں کہ وہ جان سکیں تعلیم ہمارا بنیادی حق ہے جس کے حصول کے لیے ہمیں پیسے نہیں دینے چاہیئں۔ اگر ہمیں پڑھنے کے لئے اجرت دی جائے تو نہ صرف ایک ملک بلکہ پوری کائنات اس سے مستفید ہوگی۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح دیگر شعبوں کے لئے اربوں کھربوں فنڈ مقرر کئے جاتے ہیں اسی طرح تعلیم کے لے اربوں میں بجٹ مقرر کیا جائے جس کے بعد بچوں، نوجوانوں اور بزرگوں کو تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کی جائے۔ یہ کام جتنا مشکل لگتا ہے اتنا مشکل نہیں۔ ہمارے ملک میں صحت، دفاع، تعلیم اور دیگر شعبوں کے لئے فنڈز مقرر کئے جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ فنڈ ہمیشہ دفاع کے لئے مقرر کیا جاتا ہے۔ دفاع ہر ملک کے لئے اہم ہے تاکہ سالمیت کو نقصان نہ پہنچے لیکن اس دفاع کے لئے سب سے زیادہ بجٹ مقرر کرنا سراسر عوان سے نا انصافی ہے۔ ایک کتاب میں لکھا گیا ہے جب انسان نے اپنی طاقت جسم سے چھین کر دماغ کو دی تب اس نے ترقی کی۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہتھیار سے زیادہ قلم کو اہمیت دیں تاکہ ہم بھی ترقی کرسکیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے جو ہم چیزیں استعمال کرتے ہیں وہ ہماری ایجاد نہیں ہیں لیکن ہم سے پہلے دماغ کا بہتر استعمال کرنے والے آباو اجداد کی محنت کا نتیجہ ہے۔ ان کی وجہ سے ہم پنکھے سے ای سی تک پہنچے، پیدل چلنے سے چار پہیوں والی گاڑی تک پہنچے، خط ارسال کرنے سے ای میل کرنے والے کمپیوٹر تک پہنچے۔ کہنے میں تو یہ سب آسان ہے پر ان کے پیچھے محنت کرنے والوں کو آفرین ہے اور ان کو علم کے حصول کے لئے حوصلہ فراہم کرنے والی طاقت کو بھی سلام ہے۔

اس دور میں ہمیں تعلیم کے معاملے پر غور کرنے کی ضرورت ہے یہ ہمارا حق ہے کہ ہمیں نہ صرف بنیادی پر ثانوی تعلیم بھی مفت فراہم کی جائے۔ سرمایہ داروں سے گزارش ہے کہ اس جگہ کاروبار کریں جہاں ضرورت ہو تعلیم پر کاروبار کرنا بنیادی حقوق کی استحصالی ہے۔ ہر بچے کا حق ہے کہ وہ دنیا کی بناوٹ پر علم حاصل کرے، سوال کرے اور جواب تلاش کرے۔ اس حوالے سے پوری دنیا کے محقق اور اسکالرز کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور دنیا کے تمام ممالک میں تعلیم کو مفت کیا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *