لاہور گرائمر سکول میں ہراسگی کا سامنا کرنے والی طالبات نا معلوم دباو کی وجہ سے کیس نہیں لڑ رہیں : چیرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو سارہ احمد

لاہور گرائمر سکول میں ہراسگی کا سامنا کرنے والی طالبات نا معلوم دباو کی وجہ سے کیس نہیں لڑ رہیں : چیرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو سارہ احمد

رپورٹ: انضمام میراج

گزشتہ روز لاہور کے نجی سکول لاہور گرائمر سکول میں طالبات ہیراسگی کیس کے بارے میں چئیر پرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو سارہ احمد نے اہم انکشافات کیے ہیں۔


تفصیلات کے مطابق جون کے آخری ہفتے میں لاہور کے معروف نجی سکول لاہور گرائمر سکول میں اساتذہ کی طرف سے طالبات کو جنسی طور پہ ہراساں کرنے کا معاملہ منظرعام پہ آیا تھا ۔ معاملہ میڈیا پہ آنے کے بعد سکول انتظامیہ نے تین اساتذہ کو برطرف کر دیا تھا ۔ جبکہ سوشل میڈیا پہ پرزور احتجاج کو دیکھتے ہوئے وزیراعلی پنجاب کی طرف سے بھی ملزمان کو سزا دلوانے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔

مگر ابھی حال ہی میں چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو سارہ احمد کی طرف سے اس کیس کے بارے میں اہم انکشاف کیا گیا ہے ۔ حال ہی میں جاری انکے ایک بیان میں انکا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے ملزمان کے خلاف اپنی مرضی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ جس وجہ سے ملزمان گرفتار نہ ہوسکے ۔ تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں نامزد استاد اور عملے کے مزید ارکان ضمانت قبل از گرفتاری پر ہیں۔

اسکے علاؤہ انھوں نے ایک اور اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ طالبات کو دھمکیاں دی جارہی ہیں اور انھیں بلیک میل کیا جارہا ہے جس وجہ سے طالبات شدید خوفزدہ ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ طالبات کو سیکورٹی کی یقین دہانی بھی کروائی گئی ہے مگر انھیں اس قدر خوفزدہ کردیا گیا ہے کہ وہ درخواست جمع نہیں کروا رہیں۔

جبکہ چئیر پرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے ان انکشافات کے بعد جب ہم نے اس حوالے طلبہ تنظیم پروگریسیو سٹوڈنٹس کلیکٹو کی رہنما ملیحہ بشارت سے بات کی تو ان کا کہنا تھا اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں طالبات کو کس طرح بلیک میل کیا جاتا ہے اور پرائیویٹ ادارے اپنی نام نہاد عزت بچانے کے لیے پیسہ کا استعمال کر کے دباو ڈال رہے ہیں ہم تو شروع سے ہی کہہ رہے ہیں کہ پرائیویٹ نظام تعلیم نہیں مافیا کا دھندا ہے اور آج یہ ثابت ہو گیا ۔ انکا مزید کہنا تھا کہ سیکیورٹی کے باوجود خوفزدہ طالبات اصل میں پاکستانی عوام کی اپنے سیکیورٹی اداروں پر عدم اعتماد کی عکاسی ہے ۔ ہمارے ریاستی اداروں کو اس کے متعلق نظرثانی کرنا ہو گی کہ یہ رشتہ اتنا کمزور کیوں ہے۔ ہماری اپیل ہے کہ ملزمان کے خلاف مقدمے کی پیروی تیز کی جائے اور اس مقدمے میں ریاست کو خود فریق بننا چاہیے کیونکہ یہ معاملہ صرف چند افراد کا نہیں بلکہ پاکستان کے 50 فیصد سے زائد عوام کا ہے جو خواتین پر مشتمل ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *