…جنید کو جینے دیجیے

سقراط کو ایتھنز کے لوگوں کو سوچنے کی تلقین کرنے کے جرم میں زہر کا پیالا دینے والے، ہائپٹیا کو “نئی دنیا کی نئی سوچ” تشکیل دینے کے جرم پر گلیوں میں گھسیٹ گھسیٹ کر قتل کر دینے والے، کوپرنکس کی ہئیت کے جدید قوانین پر مبنی کتاب کو جلانے کا حکم دینے والے، گلیلیو کو گھومتی دنیا کے راز فاش کرنے کے جرم میں روم کی عدالتوں میں ذلیل کرنے والے، ابنِ سینا کو علم کی روشنی پھیلانے پر مرتد قرار دے کر روپوشی پر مجبور کرنے والے اور عبدالسلام کی سائنس میں کی گئی خدمات کو بھول کر اُن کے عقیدے کا مسئلہ بنا کر اُن کو قتل کرنے کی دھمکیاں دینے والے آج تک زندہ ہیں، فقط ان کے چہرے اور نام بدلے ہیں علم دشمن سوچ نہیں. یہی وہ سوچ ہے جو اپنے مقدس عقیدوں کے نشے میں ڈوب کر اِک اور علم و منطق کی بات کرنے والے “جنید حفیظ” پر توہین کے فتوے لگا کر اُسے پھانسی کے پھندے کی جانب مسلسل دھکیلتے چلے جا رہی ہے. روشن دماغوں کو قتل کر دینے کی یہ روایت یہاں تک ہی نہیں رُکی بلکہ جنید حفیظ کا کیس لڑنے والے وکیلوں کو دھمکا کر چُپ کروانے کے ساتھ ساتھ اس کا کیس لڑتے دوسرے وکیل (راشد رحمان) کو بےدردی سے قتل بھی کر دیا گیا.

اس مذہبی شدت پسندی نے آج تک اَن گنت جانوں کو خدا کے نام پر قتل کیا ہے اور اَن گنت جانوں کے ابھی بھی درپے ہے. ایک خاص قسم کا مائنڈسیٹ ہمارے معاشرے میں ابھی تک رائج ہے کہ جس کے تحت کوئی کسی دوسرے کی بات سننا گوارا نہیں کرتا، کوئی اپنی منجمند عقیدوں کی گرہ کھولنے کی طرف دھیان نہیں دیتا، کوئی برسوں سے کی جانے والی تقلید پر سوال نہیں اٹھاتا، ایسے ماحول میں جب منطق کی روشنی پھیلانے کی کوشش جنید حفیظ نے کرنا چاہی تو اس کو پھانسی کے پھندے کی طرف دھکیل دیا گیا. اس نفرت کا شکار ہونے والا نہ تو جنید حفیظ پہلا ہے اور شاید نہ ہی آخری. تنقید ایک فن ہے جس کو آج کے دور میں دنیا کی بڑی آبادی نے تقریباً ہر معاملے میں قبول کیا ہے اور بوسیدہ روایات کو روند کر آگے بڑھنے کی جدوجہد کی ہے لیکن ہم ان اقلیتوں میں شامل ہیں جن کو تنقید برداشت کرنا کبھی سکھایا ہی نہیں گیا، اپنے نظریات پر سوال کرنا سکھایا ہی نہیں گیا. اگر سکھایا گیا ہے تو فقط یہ کہ کوئی اگر ہمارے منجمند ذہنوں کی گرہ کھولنے کے لیے علم و منطق کا سہارا لینا چاہے تو اس پر توہین کا فردِ جرم عائد کر کے قتل کی سزا دے دی جاۓ اور اسی گھٹیا ذہنیت کا شکار لاتعداد لوگ ہوۓ جن میں ایک جنید حفیظ بھی ہے.

کیا معلوم آنے والا وقت اس سے بھی زیادہ خوفناک ہو جاۓ. جس معاشرے میں آج ہم سانس لے رہے ہیں کل کو سانس لینا بھی توہین کی شکل اختیار کر جاۓ. ذرا سا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ جس حساب سے یہ معاشرہ اپنے منجمند عقیدوں میں شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ایسا خوفناک وقت زیادہ دور نہیں. ناجانے ابھی کتنے جنید اور ان انتہاپسندوں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوں گے، کتنے مشال اپنی ماؤں کی گود کو سنسان چھوڑ مر جائیں گے. آج اگر ہم زمان و مکاں کی وسعت کو دیکھیں تو ہمیں معلوم پڑے کہ اس قدر بڑی کائنات میں ہمارے جیسا اور کوئی نہیں. میں جس معاشرے میں اکھڑی سانسیں لینے پر مجبور ہو چکا ہوں اور آۓ دن جس معاشرے میں کوئی نا کوئی جنید حفیظ دیکھتا ہوں، اس معاشرے کے درندہ نما انسانوں سے ہاتھ جوڑ کر فقط ایک ہی گزارش کرتا ہوں کہ اگر آپ میں سے کوئی بھی کسی دوسرے کی سوچ سے سہمت نہ بھی ہو تب بھی کم از کم دوسری سوچ والے کو زندہ رہنے کا حق تو دیں. نہ تو کسی کو الگ سوچ رکھنے پر پھانسی پر چڑھائیں اور نہ ہی جیتے جیتے کسی کا ہر لمحہ موت کی جانب بڑھتا ہوا قدم بنائیں. کسی سے بھی کم از کم جینے کا حق مت چھینیے. اگر اسی طرح یہ معاشرہ اپنے عقیدوں پر تنقید کرنے والوں کو قتل کرتا رہا تو شاید وہ دن دور نہیں جب ہر طرف فقط خون ہی خون بہتا نظر آۓ گا اور پھانسی کے پھندے فقط ایسے ذہنوں کو ہلاک کرنے کے لیے ہوں گے کہ جن سے علم و منطق کے دیے جلانے کا جرم ہوا تھا.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *