جشن آزادی مبارک

Sayyedaah Jabeen e Hussyn

 نعرہ گونجا تو دیکھا کہ ٹی وی کی اسکرین پر سبز دوپٹہ اوڑھے اور سفید لباس پہنے ایک عورت لوگوں کے ہجوم سے گھری ہوئی ان سے جشن آزادی کے موقع پر کی جانے والی تقریبات کے بارے میں سوال جواب کر رہی تھی.کیلنڈر پر دھیان گیا تو تیرہ اگست کی رات تھی گویا اگلے روز چودہ اگست یعنی پاکستان کی سالگرہ کا دن تھا. بچپن سے ترانوں کے ترنم میں جھومتا ہوا دل بے قرار ہوا اور یاد آیا کہ بچپن میں بڑے شوق سے جھنڈیاں لگایا کرتے تھے. پورا گھر جھنڈیوں سے سجا دیتے تھے اور چھت پہ پاکستان کا پرچم لگا کر سمجھتے تھے کہ آزادی اسی کا نام ہے.  جیسے جیسے وقت گزرا اور آزادی کے معنی سمجھ آنے لگے ویسے ویسے توجہ جھنڈیوں اور جھنڈے سے نکل کر اس ملک کے باسیوں کے حالات و واقعات کی طرف مبذول ہونے لگی. وقت کے ساتھ ساتھ “آزادی کی خوشی” “محرومی کے احساس” میں بدلنے لگی. عقل سوال کرتی تھی کہ آزادی تو ارتقاء پذیری کا نام ہے. جبکہ جو سبق ہمیں پڑھایا جا رہا ہے اس میں آزادی کا مترادف “بندش” لکھا گیا ہے. آزادی کا احساس خوشی تب دیتا ہے جب ہم اپنا موازنہ اپنے ماضی سے یا ان لوگوں سے کریں جن سے ہماری راہیں اس لئے جدا ہوئیں تھی کہ ہم ہر میدان میں تیزی سے قدم بڑھائیں گے. لیکن ہم تو اب بھی 1857 میں ہیں.  ہمارے نوجوانوں کو اب بھی تعلیم ہنر اور حکمت سے متنفر کیا جا رہا ہے. کوئی تو ہو جو ان نوجوانوں کی رہبری کرے  جو ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے نوکریوں کے لئے کسی پیشوا کےمنتظر ہیں. کوئی تو ایس طاقت ہے جو  ہماری  عقلوں  پہ تالے لگا کر، ہمیں بالوں سے گھسیٹ کر تاریخ کے زرد پڑ چکے پنوں میں پھینکنا چاہتی ہے. کچھ ہے جو ہم سے چھپایا جا رہا ہے. کیوں اس معاشرے کا ہر عقل مند فرد ویزے کی قطاروں میں دھکے کھا رہا ہے؟ اس ملک نے اپنے ہی جوانوں کے خواب نگل لئے ہیں.  مایوسی اس قدر ہے کہ وہ نمغے جنہیں سن کر دل کی دھڑکن تیز ہو جایا کرتی تھی ان کے مصرعے اب خون نہیں گرماتے.  میرے وطن کی گلیوں میں اب چھوٹے بچے باہر کھیلنے نہیں جاتے. انہیں خطرہ ہے کوئی انہیں اغواء کر لے گا، کیونکہ ہم آزاد نہیں ہیں. ہم اپنے ہی وطن میں قید ہیں. سوچئے ایک باغ ہو اور اس میں ہر طرح کا پھول اپنی اپنی خوشبو بکھیرے بیٹھا ہو لیکن مالی چاہے کہ سب پھول ایک ہی جیسے ہوں اور ہر اس پھول کو اکھاڑ پھینکے جو اس کی پسند کا نہ ہو. تو اس باغ میں اُگنے والی نئی کونپلیں کبھی ان مختلف پھولوں کی خوشبو نہ محسوس کر پائیں گے.  محبت امن سکون  آزادی کے ساتھ آنے والی سہولتیں ہیں اگر یہ ناپید ہوں تو سمجھ لیجئے کہ ہم آزادی کے “آ” کے قد کے برابر بھی نہیں پہنچ پائے.

کلیم عاجز کے چند مصرعے ملاحظہ کیجئے

بڑی طلب تھی بڑا انتظار دیکھو تو

بہار لائی ہے کیسی بہار دیکھو تو

یہ کیا ہوا کہ سلامت نہیں کوئی دامن

چمن میں پھول کھلے ہیں کہ خار دیکھو تو

لہو دلوں کا چراغوں میں کل بھی جلتا تھا

اور آج بھی ہے وہی کاروبار دیکھو تو

یہاں ہر اک رسن و دار ہی دکھاتا ہے

عجیب شہر عجیب شہریار دیکھو تو

……………….

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *