طلبہ سے بیزار نظامِ تعلیم

طلبہ سے بیزار نظامِ تعلیم

تحریر: انضمام معراج

سچ پوچھیے تو میرے پاس اس تعلیمی نظام کے حق میں لکھنے کے لیے ایک لفظ بھی نہیں ہے ۔پچھلے ستر سال سے تعلیم کے نام پہ جو مذاق مسلسل ہم نے کیا گیا ہے وہ کسی طور بھی معقول الفاظ کا حق دار نہیں ہوسکتا ۔ بہترین کوشش کرچکا ہوں مگر مجھے کوئی ایک ایسا کارنامہ نہیں ملا جس پہ کلمہ خیر ادا کیا جاسکے۔ جس پہ ہم اس ملک کے باسی کچھ فخر کرسکیں۔

قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہم اپنی ترجیحات کا فیصلہ نہیں کرسکے ۔ ایسا ہی کچھ ہمارے تعلیمی نظام کیساتھ کیا گیا ہے ، بلکہ اگر ہم تھوڑی سی سچ بولنے کی کوشش کریں تو اسے
آ فن ود ایجوکیشن(تعلیم کے نام پہ مذاق) کہنا چاہیے ۔

قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہمارے تعلیمی نظام کی پرکھ کی جائے تو آنکھوں کے ڈوڈے باہر آجائیں اور اس داستاں کو لکھتے ہوئے انگلیوں کے پوروں میں بھی سوزش پڑ جائے لیکن پھر بھی داستاں مکمل نا ہو۔ المیہ یہ ہے ہم نے آج تک نظام تعلیم کی بنیادی ضروریات تک کو پورا نہیں کیا ۔ ہمارے ہاں سرکاری تعلیمی ادارے ابھی تک معیاری تعلیم تو درکنار بنیادی ضروریات سے ہی محروم ہیں۔ سرکاری اداروں کا ناقص تعلیمی نظام اور نمبروں کی دوڑ نے معاشرے کی شکل ہی بگاڑ کہ رکھ دی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ تعلیمی ادارے مکتبہ علم کم اور کشتی کے اکھاڑے زیادہ لگتے ہیں۔ اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو معلوم پڑے گا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے اس ناقص تعلیمی نظام نے طبقاتی خلیج کو بے حد پروان چڑھایا ہے ۔

ہمارے تعلیمی نظام میں ایک واضح قسم کی طبقاتی تقسیم پیدا کردی گئی ہے ۔ غریب کا بچہ ، ناقص معیار کے حامل سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھتا ہے جہاں جدید طریقہ تدریس ، جدید علمی مباحثوں پہ مواد نا پید ہے ۔ جو جدید طریقہ ریسرچ سے لاعلم ہیں۔ جبکہ اسکے مقابلے میں امیر کا بچہ ایک بہترین تعلیمی ماحول میں ، جدید ذرائع سے تعلیم حاصل کرتا ہے ۔ جو کہ جدید دنیا سے بہتر واقف ہوتا ہے ۔ اور جب یہ دونوں طبقے مارکیٹ میں آتے ہیں تو دونوں کو پرکھنے کا آلہ تعلیمی معیار ہے جبکہ وہ دو طرح کے متضاد ماحول سے علم حاصل کرکے آئے ہوتے ہیں۔
اب جو نچلے طبقے سے تعلق رکھتا ہے اسے خود سے از سرِ نو اپنے بل بوتے پہ اپنی علمی استعداد پہ کام کرنا ہے جس کیلئے اسے بےحد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرکاری اداروں کا استبدادی رویہ الگ ، مارکیٹ کی پروفیشنل ڈیمانڈ الگ ہے۔نتیجے میں نچلا طبقہ نیچے ہی دھنستا چلا جاتا ہے گویا اسکے لیے یہ نظام ہر طور مثل دلدل ہے۔ اس نے ہر حال میں نیچے کو ہی سرکنا ہے اور دھنستے چلے جانا ہے ۔ اور اس طبقاتی خلیج کو گہرا کرنا ہے ۔

علاؤہ ازیں تعلیمی اداروں کے اندر کیا گیا استحصال ایک الگ داستانِ غم ہے ۔حال ہی میں اس وقت جب پوری دنیا میں وبا کی وجہ سے ہاہاکار مچی ہوئی ہے ہماری نوپید ریاست مدینہ کے فیصلوں نے طلبہ میں موجود اس طبقاتی خلیج کو مزید واضح کیا ہے۔ پچھلے دو سالوں سے کیے جانے والے کچھ فیصلے اس نظام کے استبداد کی واضح مثال ہے ۔

نااہلی کا مقام دیکھیے کہ زمینی حقائق کو بالکل نظر انداز کرکے آن لائن کلاسز کا اجراء کردیا گیا ، نا کوئی حکمت عملی اور نا کوئی پالیسی ۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم نے بس دنیا کو دکھانے کے لیے آن لائن کلاسز شروع کردی ہیں ، نا دیکھا گیا کہ یہ کتنا ممکن ہے اور نا کوئی واضح حکمت عملی اختیار کی گئی ۔اب جن طلبہ کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت ہی موجود نہیں انکے لیے کوئی واضح پالیسی ہی نہیں بنائی گئی ۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ طلباء سے فیسیں بٹورنے کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ایک بہانہ میسر آ گیا ۔آپ بس دھیرے سے یہ یاد رکھیے کہ حقیقت میں باقی سب تو ڈرامہ ہے اصل میں فیسیں بٹورنا ہی مقصد ہے۔ اب جب طلبہ نیٹ پیکج بھی اپنے پیسوں سے لگوا رہے ہیں ،کلاس لینے کے لیے اپنے گھر سے میلوں دور کا سفر بھی اپنی جیب سے ادا کر رہے ہیں تو الٹا بھاری فیس بھی جمع کروائیں اور فیسوں میں شامل غیر ضروری واجبات بھی دیں ۔

حالیہ معاشی بدحالی کے نتیجے میں مڈل کلاس طبقہ تو پہلے ہی نیچے کو سرکنا شروع ہوگیا ہے ۔ اعلیٰ تعلیم ( جو کہ مزدور طبقے کے لیے تو پہلے ہی سوچنا درکنار تھی) اب مڈل کلاس طبقے کے لیے بھی مشکل تر بنا دی گئی ہے ۔یہی صورتحال رہی تو تعلیم کا بوریا بستر لپٹتے وقت نہیں لگے گا۔

مقام فکر ہےکہ ہمارا سیاسی اشرافیہ آج تک یہ فیصلہ ہی کرنے سے قاصر ہے کہ طلبہ کو کیا پڑھانا ہے ، کیسے پڑھانا ہے اور کیوں پڑھانا ہے؟ ان سوالات کے جوابات دنیا میں ہر جگہ اہم ہوتے ہیں۔ حالانکہ ہم نے پچھلے ستر سال غیر اہم چیزوں کو اہم بنانے میں ہی مشقت کی ہے ۔ آخر کب سمجھ آئے گی کہ تعلیمی اداروں میں یہ بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج ایک دیمک ہے جو نوجوانوں کو کھوکھلا کر رہی ہے ۔ اگر اداروں میں بڑھتی اس خلیج کو نا روکا تو یہ ایک بڑا قحط بن جائے گا ۔

حقیقت تو یہ ہے کہم علم کو علم کے اصول پہ سیکھا ہی نہیں گیا۔علم کو پھیلانے کیلئے کھلی فضا چاہیے ، علم کی راہ میں جب کوئی رکاوٹ آجائے تو علمی سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح تعلیمی اداروں پہ جب نظریاتی یا راج نیتی کی مصلحتیں سایہ کرلیتی ہیں تو وہاں علم اپنے اصولوں پہ موقوف ہوجاتا ہے ۔ پھر وہاں ایک خاص لائین ، ایک سختی جنم لے لیتی ہے جو کہ بعد میں جا کر معاشرے میں استبداد پیدا کرتی ہے ۔ علم آزاد ماحول میں پنپتا ہے ۔ تو اگر ہم نے بحیثیت قوم علم حاصل کرنا ہے تو ہمیں تعلیمی اداروں پہ چھائے یہ سائے ختم کرنے ہوں گے۔

اور علم کو ایک آزاد فضا فراہم کرنی ہوگی ۔ یہی فضا ہمارے تعلیمی اداروں اور تعلیمی نظام میں موجود طبقاتی خلیج کو ختم کرسکتی ہے ۔ اور منطق جو کہ برسوں پہلے اس خطہ ارض سے پرواز کرچکی ہے اسے واپس لوٹا سکتی ہے ۔ آپ بس اتنا کردیجیے، علم کی راہ میں اٹکے یہ پتھر ہٹا دیجیے ،وہ پکار کر رہا ہے ، وہ بہنا چاہتا ہے اپنے جوبن پہ ، اپنا من موج بن کے ، وہ بہنا چاہتا ہے۔ اسے بہنے دیجیے ، اسے پنپنے دیجئے ۔اسکے راہ میں رکاوٹ بننے کی بجائے اسکے ساتھی بن جانا ہی عقل مندی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *