کانوں میں آواز باز گشت بن کر گونج رہی ہے کہ سیلاب ہمارے گناہوں کا بوجھ ہے، اللہ ہم سے ناراض ہے، اُس کی ناراضی کا بوجھ ہم کیسے اٹھائیں؟ آئیں سب مل کر توبہ کریں کہ وہ اس سیلاب کو واپس موڑ دے۔
ہو سکتا ہے کہ یہ سیلاب ہمارے گناہوں کا بوجھ اُتار دے مگر میں سوچ رہا تھا کہ سانگھڑ کے اللہ دینو نے کیا گُناہ کیا ہو گا جس کی کُل کائنات ایک کوٹھری، چارپائی اور صندوق تھا۔ راجن پور کی سکینہ بی بی جس کی آس، اُس کا بہہ جانے والا امیدوں کا مرکز، اکلوتا بیٹا تھا اور اُس کا وہ صحن جس میں چارپائی بچھا کے وہ خود کو مختار کُل سمجھتی تھی۔
نصیر آباد کے اللہ یار نے کیا قصور کیا ہو گا جس کے کھیتوں کی فصل ابھی اُٹھان پر تھی اور پانی اُس کے سارے خواب بہا لے گیا یا شہداد پُور کی وہ نوجوان لڑکی جس نے کبھی گھر کی دہلیز سے قدم باہر نہیں نکالا تھا مگر اُسے راشن کے بہانے ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
ہم اپنے گناہوں کا اعمال نامہ ستائے ہوئے لاچار لوگوں کے ہاتھ تھماتے ہوئے یہ تو نہیں سوچتے کہ ان کا اصل گُناہ ان کے کچے مکان اور اُمیدیں ہیں جو ناپختہ پُشتوں کی مانند ہیں جن میں لگا بدعنوان سیمنٹ نہ جانے کس نے لگایا اور نہ جانے کس نے کمیشن بنایا؟
بیسیوں بند کیسے ٹوٹے اور کس کی زیر نگرانی بنے؟ یہ سوال کون اٹھائے گا اور جواب کون دے گا؟ اصل گُناہ گار تو وہ مجبور دہقان ہیں جن کی چٹختی ہڈیاں ہل جوتتے وقت دہائی دیتی تھیں مگر اچھی فصل کی اُمید مرہم بن جاتی تھی۔ اُنھیں کیا معلوم تھا کہ اپنی فصلیں بچاتے زورآور دریاؤں کے رُخ اُن کی طرف موڑ دیں گے۔
گناہ گاروں کو یہ خبر تو ہو کہ اُن کے نام پر بننے والے ادارے کس کس سے ان کے نام کا کتنا فنڈ لیتے رہے؟ وہ فنڈ اُن تک پہنچتے پہنچتے کس ذاتی کار خیر میں خرچ ہوتا رہا؟ کوئی یہ بھی تو پوچھے کہ سنہ 2005 کے زلزلے میں تباہ ہونے والے بالاکوٹ کی جگہ نیا شہر بسنا تھا اُس کا کیا ہوا؟
یہ کون بتائے کہ طاقتور ادارے احتساب سے کس طرح بالاتر ہیں؟ یہ کون پوچھے کہ عدالتیں جب ریکوڈک اور کارکے کی ڈیلیز زیر غور لا رہی تھیں تب عالمی ریڈار پر پاکستان کو ماحولیاتی شدت کے خدشات کے شکار چند حساس ترین ممالک کی فہرست میں شامل کیا جا رہا تھا۔
جب ریاست مملکت پاکستان میں تبدیلی کی کوششوں میں جُتی تھی تب سنہ 2010 کے سیلاب کے بعد پاکستان کو سرفہرست دس ممالک میں رکھا گیا تھا مگر ترجیحات کیا تھیں؟ یہاں تک کہ گذشتہ برس ہم ان پانچ ممالک میں شامل کیے گئے جو ماحولیاتی اور موسمیاتی شدت کا شکار ہو سکتے تھے مگر اسے پھر بھی ترجیحات میں شامل نہ کیا گیا۔
یہ کون بتائے کہ ترقی یافتہ ممالک کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں کس طرح ترقی پذیر ملکوں کے آسمانوں کو گہنا رہا ہے؟ زیادہ دور نہ جائیے اسی برس اپریل میں ہمارے اپنے ادارے بھی مون سون کی غیر معمولی بارشوں سے خبردار کر رہے تھے اور ہم ’رجیم چینج‘ کی سازش میں پھنسے ہوئے تھے۔
کون بتائے کہ ہم کن گُناہوں کی سزا پا رہے ہیں، کس کس کی خطاؤں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں؟ یہ سب بتانے کے لیے حساب تو دینا بنتا ہے مگر نہیں، حساب کتاب کے کھاتے صرف غریبوں اور لاچاروں کے لیے ہی ہیں۔
گذشتہ بیس برس میں فوجی اور سیاسی حکومتوں نے کبھی اس بارے میں توجہ نہ دی اور یہاں تک کہ ہم میڈیا والے بھی اسے کسی طور خبر بنانے میں ناکام رہے۔
اب جب سرکاری اعداد و شُمار کے مطابق 34 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے، ساڑھے تین کروڑ عوام سیلاب سے متاثر ہو چکے، چالیس لاکھ ایکڑ فصلیں تباہ ہو گئیں، پانچ ہزار پانچ سو تریسٹھ کلومیٹر سڑکیں بہہ گئی ہیں، چھوٹے ڈیمز ٹوٹ چُکے ہیں تو اس خسارے سے نکلنے کی منصوبہ بندی کیا ہے؟
کیا ممکن ہے کہ ڈیم فنڈ کی مد میں جمع کیے گئے اربوں روپے کا حساب بھی قوم کو دے دیا جائے اور یہ بھی بتا دیا جائے کہ ڈیم کی رکھوالی اب کس کے پاس ہے اور چوکیداری کون کر رہا ہے؟
دُنیا میں سب سے زیادہ گلیشیئرز والا مُلک غیر یقینی موسمیاتی شدت کا شکار ہے۔ گذشتہ چند ماہ میں وزارت ماحولیات نے جنگی بنیادوں پر کام ضرور کیا تاہم اسے تسلسل اور فنڈز کی ضرورت ہے۔
اس سیلاب نے آنکھیں تو کھول دی ہیں لیکن ڈر یہ ہے کہ ریلا نکل جانے کے بعد محض اگلے ریلے کا انتظار نہ کیا جائے۔ اس آفت نے تمام دعوؤں کو دھو کر رکھ دیا لیکن کیا اب بھی ہم سبق سیکھنے کو تیار ہیں؟
بااختیار مقامی حکومتیں اور چھوٹے مگر مضبوط بند، دریاؤں اور پانی کی گزرگاہوں کے مضبوط پُشتے نہ بنائے گئے تو اگلے سال خدانخواستہ مون سون اور سنگدل ہو سکتا ہے۔
اب تو غریبوں کے نہ کردہ گناہوں کی سزا اُنھیں مل گئی لیکن آئندہ وہ یہ سوال ضرور کریں گے کہ ہم اتنے گناہ گار تو نہیں کہ ہر سال بہہ جائیں۔۔۔ کچھ گُناہ اہل اقتدار کو اپنے سر بھی لینا ہوں گے۔