جاگیرداری کا زوال

تاریخ کو سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر تقسیم کیا جاتا ہے، جس کی رو سے پہلے شکار کا زمانہ تھا، پھر زمانہ غلامی اور پھر فیوڈل ازم آیا۔ ہر روایت اور ہر ادارہ وقت کی ضرورت کے مطابق خود کو بدلتا رہتا ہے۔ اکثر یہ ادارے ختم ہو جاتے ہیں لیکن ان کی وجہ سے جو کلچر پیدا ہوتا ہے اس کے ختم ہونے میں کافی وقت لگتا ہے اور فیوڈل ازم کا بھی یہی حال تھا۔ فیوڈل ازم کی کوئی خاص تعریف نہیں ہے لیکن کچھ چیزیں اس میں عام ہیں۔

ا) فوجی طبقے کا معاشی پیداوار پر قبضہ۔

ب) کسانوں کی محنت کا استحصال۔

ج) وصول رقم سے آرٹ، شاعری اور تعمیر کا فروغ۔ 

یورپ میں فیوڈل ازم کا آغاز دور غلامی میں ہوا جبکہ ہندوستان میں تنخواہ کے عوض لوگوں کو زمینیں دے کر اپنی قسم کا فیوڈل ازم پیدا کیا گیا۔ جاگیرداری (فیوڈل ازم) کی وجہ سے وسائل ایک طبقہ میں تقسیم ہوئے جس کی وجہ سے معاشرے کے دوسرے طبقوں کو ترقی نہیں ملی اور معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔ فیوڈل ازم کی بنیاد وفاداری اور باہمی تعلقات پر تھی، یعنی کسان جاگیرداروں (فیوڈل لارڈز) کیلئے فوجی خدمات سر انجام دے کر ان سے کاشت کاری کیلئے زمین وصول کرتے تھے۔

یہ بہت برا، ظالمانہ اور جاہلانہ دور تھا۔ مورخ لکھتے ہیں کہ جاگیردارنہ کلچر میں جاگیردار کا اپنے ماتحت (کسان) سے خوش اخلاقی سے بات کرنا بھی نیکی اور خوبی کی بات تھی۔ فیوڈل لارڈز جب اپنی زمین بیچتے تھے، تو اس کے ساتھ کسان بھی بیچتے تھے۔ ہندوستان میں کسان پر گاوں چھوڑنے کی پابندی عائد تھی۔ جاگیردار ہر ایک چیز میں کسانوں سے ٹیکس لیتے تھے جیسا کہ مچھلی پکڑنے کا، اناج کا، مویشیوں کا، جنگل میں شکار کا، مویشی چرانے کا، بچوں کے تعلیم حاصل کرنے کا، وغیرہ وغیرہ۔ جب کسان کی بیٹی کی شادی ہو جاتی، تو اس کی سہاگ رات فیوڈل لارڈ کے ساتھ گزرتی، پھر اس کا شوہر جرمانہ دے کر یہ حق حاصل کرتا تھا۔ مطلب یہ کہ اس دور میں کسان جانوروں جیسی زندگی بسر کر رہے تھے۔

ریاست کی ہر ایک شے پر امراء کا حق تھا۔ فیوڈل معاشرے کا مقصد ہی طبقاتی فرق کو برقرار رکھنا اور اس کو بڑھاوا دینا تھا جس کیلئے اکثر کسانوں کو بہت سخت سزائیں دی جاتی تھیں جیسا کہ کوڑے مارنا، چہرے کو داغنا، زبان کو گرم سلاخ سے چھیدنا، جسم کے حصوں کو کاٹنا، آنکھیں نکالنا، زندہ دفن کرنا وغیرہ۔ یہی وجہ تھی کہ کسان ہمیشہ لارڈز کے تابعدار رہتے تھے۔ اس دور میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ عورت کو باعث شرم سمجھا جاتا تھا، اور ان کا خیال تھا کہ یہ مرد کو گناہ کی طرف راعب کرتی ہے۔ عورت پر انواع و اقسام کی پابندیاں عائد تھیں جبکہ خود مردوں کو ناجائز جنسی تعلقات رکھنے تک کی اجازت تھی۔

خود فیوڈل لارڈز بڑے عیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے۔ وہ ایک بڑے عالی شان قلعہ نما محل میں رہتے تھے جس کے درمیان میں ایک بڑا ہال اور مجرموں کیلئے تہ خانہ ہوتا تھا۔ محل کے چاروں اطراف چاک و چوبند فوجی دستوں کا ایک زبردست پہرہ ہوتا تھا۔ فیوڈل لارڈز کے بچے اکثر ان پڑھ رہتے کیونکہ معاشرے میں وقار صرف زمین اور دولت کی تھی جو ان کے پاس بے انتہا تھی۔ ان کی زیادہ تر توجہ اکثر جنگی مہارتوں پر ہوا کرتی تھی۔

عیسائیت کو فروغ بھی فیوڈل معاشرے نے دیا تھا کیونکہ فیوڈل لارڈز چرچ کیلئے مفت زمین دیتے تھے۔ 1050ء سے لے کر 1350ء تک فرانس میں تقریبا 500 بڑے چرچ تعمیر ہوئے تھے۔

فیوڈل ازم اٹھارہویں صدی تک یورپ میں مستحکم رہا لیکن پھر صنعتی اور تکنیکی ایجادات نے اس کا قلع قمع کر دیا۔ یہ خاتمہ تین طریقوں سے ممکن ہوا۔

ا) انگلستان میں کسانوں کا ایک گروہ تجارتی جماعت کے طور پر ابھرا، جس نے دولت کے بل بوتے پر جاگیرداروں کو شکست دی۔

ب) فرانس میں کسانوں نے بغاوت کا اعلان کیا اور یوں فرانسیسی انقلاب کے ذریعے اس کا خاتمہ ہوا۔

ج) نیپولین نے جرمنی پر حملہ کرکے جاگیرداری کی بنیادیں اکھاڑ دیں۔

بالاآخر 1810ء میں مظلوم کسانوں کو اسیر پن سے آزاد کر دیا گیا۔

اس کے برعکس ہندوستان میں مغلیہ دور میں فیوڈل ازم کا زوال تب شروع ہوا جب جاگیریں کم اور جاگیردار زیادہ ہو گئے۔ مغل حکمرانوں نے نادانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ذاتی زمینیں، جن کو جاگیر خالصہ کہا جاتا تھا، جاگیرداروں کو دے دیں۔ کچھ عرصہ بعد زرعی قحط آیا جس کی وجہ سے جاگیرداروں نے کسانوں کو کام سے فارغ کر دیا، اور خود زمینوں پر قبضہ کرکے کاشت کاری شروع کردی۔ ان جاگیرداروں نے مغل حکمرانوں کو ٹیکس دینا بند کر دیا اور اس طرح مغل حکمران کٹھ پتلی بن کر رہ گئے۔ دوسری طرف کسانوں نے بھوک و افلاس کے ہاتھوں تنگ آکر جاگیرداروں کے خلاف بغاوت شروع کر دی۔ ان ناساز حالات کا جائزہ لیتے ہوئے انگریزوں نے ہندوستان میں قدم رکھ کر جاگیرداری کے اس کھوکھلے نظام کو بدلنا چاہا کیونکہ یہ اپنی افادیت کھو چکا تھا لیکن جب انگریز اس مقصد کے حصول میں نامراد ہوگئے تو انہوں نے چالاکی کرکے جاگیرداروں کا ساتھ دے دیا تاکہ ان کی بغل میں رہ کر ان کو ہرا سکے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انگریز چالیں چلتے رہے، مستحکم ہوتے گئے اور باالآخر انہوں نے زمینوں پر ڈیرے ڈال کر پرانے جاگیرداروں کو ٹھکانے لگا دیا، اور ان لوگوں کو زمینیں دے دیں جو ان کے وفادار تھے (یعنی جنہوں نے 1857ء کی جنگ آزادی میں سکھوں کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا تھا)۔ اپنے وفاداروں کا دل رکھنے کیلئے انگریزوں نے طرح طرح کے حربے استعمال کئے، ان کو مختلف خطابات و القابات سے نوازا اور ان کو انگریزی تعلیم سے آراستہ کیا جس سے وہ لوگ انگریزوں کے مزید دلدادہ ہو گئے۔ ایک دور ایسا بھی آیا کہ ان تمام جاگیرداروں کا انحصار مکمل طور پر انگریزوں پر ہوگیا اور اب وہ ان کی اجازت کے بغیر ہل بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ حد درجہ وفادار بن چکے تھے (یعنی ان کا ضمیر خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا)۔

چلتے چلتے برطانوی عہد میں جاگیرداروں کا زور ٹوٹ گیا اور تمام اختیارات حکومت کے ہاتھ لگ گئے۔ جب 1860ء میں برطانوی حکومت نے جمہوری اداروں کو متعارف کرایا تو اپنی کھوئی ہوئی عزت دوبارہ پانے کیلئے ان جاگیرداروں نے خوشامدیوں کے ذریعے خود کو ان اداروں میں منتخب کروایا۔ انگریزی تعلیم حاصل کرکے اگر ایک طرف یہ لوگ انگریزوں کے اور زیادہ وفادار بن گئے تو دوسری طرف 1885ء میں انہی لوگوں کا ایک طبقہ ابھرا جس نے کانگرس کی تشکیل کی۔ انگریز حکومت اور جاگیرداروں کیلئے ان کا مقابلہ کرنا سخت کٹھن تھا۔ بعد میں جب کانگرس نے جاگیردانہ نظام کے خاتمے کا پختہ ارادہ کرلیا تو مسلمان مفاد پرست جاگیرداروں نے خود کو بچانے اور سکھ کا سانس لینے کیلئے 1945ء میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ تقسیم ہند کے بعد 1951ء میں کانگرس نے انڈیا سے جاگیرداروں کا خاتمہ کردیا لیکن پاکستان میں ان کو نئی زندگی مل گئی کیونکہ تعلیم یافتہ طبقہ انڈیا چلا گیا اور پاکستان میں اب ان کا کوئی دشمن باقی نہ رہا تھا جو ان کی مخالفت کرتا۔ سیاست، فوج اور بیوروکریسی میں پنجے گھاڑ کر انہوں نے اصلاحات کو روکے رکھا۔ تعلیمی اداروں کے زوال کی سبب یہ طبقہ ہر دور میں، چاہے آمریت ہو یا جمہوریت، مضبوط رہا۔

کیا پاکستان میں اب بھی جاگیردارانہ نظام ہے؟

پاکستان میں یہ نظام نہ تو یورپ کے طرز عمل کا ہے اور نہ پرانے ہندوستان جیسا۔ پاکستان میں جاگیردارانہ جمہوریت ہے۔ یہاں جاگیردار اقتدار میں آگئے ہیں (ارکان اسمبلی اور وزراء)، اور حکومت سے اپنے اختیارات وسیع سے وسیع تر کروا رہے ہیں۔ عوام ان کی قدر و عزت کرتے ہیں کیونکہ یہ حکومت اور انتظامیہ سے ان کے کام نکلواتے ہیں۔ اب بھی بعض جگہوں پر یہ کسانوں پر ظلم کرتے ہیں اور ان کو اپنے نجی زندانوں میں قید رکھتے ہیں۔ یہاں جاگیردار شہر میں رہتے ہیں اور حکومتی اداروں پر ان کا تسلط قائم ہے کیونکہ حکومت ان کی محتاج ہے۔ لیکن، میرے خیال میں یہ نظام اب اپنی افادیت کھو چکا ہے کیونکہ یہ معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ نہیں کر رہا۔