نوجوانوں کے گیت نامی ناول چینی مصنفہ یانگ مو نے 1958 میں لکھا۔1931 کے بعد جب چین جاپانی سامراج کے شکنجے میں آرہا تھا تو کمیونسٹ پارٹی کے نوجوانوں نے ہر طرف سے اسکے خلاف مزاحمت شروع کی۔ اس انقلابی جدوجھد کے دوران تشدد اور جیل خانوں کی اذیتوں کے ساتھ ساتھ بہت سے نوجوانوں نے موت کو خوشی سے سینے لگایا۔ یہ ناول اس وقت کے معروضی حالات کی منظر نگاری کرتا ہے۔ کمیونزم کے نظریات کی دشمن پاکستانی حکمران طبقے نے اس ناول پر پاکستان میں پابندی عائد کی تاکہ نوجوان انقلابی ادب نہ پڑھ سکیں۔ جب کبھی انسان نے انقلاب کی راہ پر چلنے کی کوشش کی ، اسے کتاب سے دوستی کرنا پڑی۔ کتاب انقلاب کی راہ پر چلنے والے فرد کو تقویت دیتی ہے۔ جدید تعلیم کے علاوہ تاریخ، ادب اور سائنس کی تعلیم سے خود کو اجاگر کرنا انقلابی کا اولین فریضہ ہے۔ یہ ناول ایک ایسی لڑکی کی زندگی کے بارے میں لکھا گیا ہے جو ایک رجعت پسند معاشرے اور جاپانی سامراج کے تحت غلام چین کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئی تھی، جو زندگی کے مشکل ترین راستوں سے گزر کر چینی انقلاب میں سرخرو ہوئی اور 9 دسمبر 1935 کی صورت میں اس کا لطف اٹھایا۔
اس ناول کا ہر کردار ایک سے بڑھ کر ایک ہے، لیکن ناول کا مرکزی کردار تاؤ چھینگ نامی لڑکی کی جدوجہد پر مبنی ہے، جس کا آغاز اُس کی ماں کے جبر کے نتیجے میں اس کے گھر سے ہوا۔ پیسوں کے بدلے اسے جاگیردار کے حوالے کرنے کی شرط طے ہو جاتی ہے۔ اس سانحے سے بچ کر وہ اپنے دوست کی تلاش میں ایک گاؤں چلی گئی جہاں وہ استاد تھا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ گاؤں چھوڑ کر چلا گیا ہے لیکن اس اسکول کے پرنسپل نے اسے استاد ہونے کا بہانہ بنا کر اسے وہیں رہنے کا مشورا دیا۔ اس گاؤں میں اس کی ملاقات یوی یونگزے نامی نوجوان سے ہوئی، جو پے فینگ شہر کی پیکنگ یونیورسٹی میں چینی تاریخ اور ثقافت کا طالب علم تھا۔ تاؤ چھینگ کے بارے میں اسکول کے پرنسپل کے ارادے اچھے نہیں ہیں۔ تاؤ چھینگ جلد ہی اسکے ارادوں کو بھانپ لیتی ہے اور پیکنگ یونیورسٹی میں اپنے دوست یوی یونگزے کے ساتھ رہنے چلی جاتی ہے۔ وہ اس کے ساتھ ہاسٹل میں رہتی ہے اور گھر کا کام کرتی ہے۔ وہاں اس کی ملاقات ایک طالب علم رہنما لو چیان چھوان سے ہوتی ہے اور تاؤ چینگ کی زندگی میں اس کی آمد ایک فوری انقلاب کا باعث بنتی ہے اور اس کی زندگی بدل جاتی ہے۔ لو چیان چھوان اس کے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا استاد بھی ہے اور اسے تاریخ، سائنس، فلسفے کے ساتھ ساتھ لینن، کارل مارکس، اینگلز اور ٹراٹسکی کی کتب کے علاؤہ اور بہت سی دوسری کتابیں بھی پڑھنے کے لیے دیتا ہے۔ ان کتابوں کو پڑھ کر اس کی زندگی بدل جاتی ہے اور وہ انقلاب کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔ اس کو لو چیان چھوان، لو تا فانگ، اور شوئی ہوئی جیسے ساتھی انقلابی اور بہادر رہنما اور دوست ملے۔ انکی انقلابی جدوجہد اور تنظیم اور استقامت اتنی واضح اور مضبوط تھی کہ سامراجی بھی ان سے خوف زدہ تھے۔ اس طرح تاؤ چینگ کا ہو منگ آن جیسے رجعت پسند اور ظالم اور سامراجی بھیڑیے سے سامنا بھی ہوا جو اس کو سرخ پروپگنڈا کرنے پر گرفتار کرتا ہے اور جیل میں اسے زد و کوب کرتا ہے۔ اس ناول میں نوجوان پارٹی کے بارے میں اتنے سنجیدہ تھے کہ تاؤ چینگ کو ایک گاؤں میں ایک پرائیوٹ ٹیچر نے اسے ایک زمیندار کے گھر بھیجا جو اس کے بچوں کو پڑھاتی تھی اور وہاں رہ کر ان کے سامرجی ہتھکنڈے اور زندگی اور زمیندار کے خیالات اور جاگیردار کے رہنے اور طور طریقوں سے آشنا ہوتی ہے اور گاؤں والوں کو منظم کرتی ہے اور جاگیردار کے خلاف جدوجہد کو تیز کرنے میں کامیابی حاصل کرتی ہے۔ اس ناول میں تائی یوی جیسے غداروں کی مذمت کی گئی ہے جو اس عظیم جدوجہد کے راز اور منصوبے کو دشمن کے سامنے افشاں کرتے ہیں اور بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔ تائی یو جیسے کردار ہر جگہ موجود ہیں اور انہیں بے نقاب کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کتاب میں ایک بات سچی اور واضح ہے کہ جو بھی کسی بھی جماعت یا تنظیم کے ساتھ ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنی جماعت کے ساتھ ایماندار ہو اور راز کو راز میں رکھے، اسے اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لیے اس میں کامل طریقے سے شامل ہونا چاہیے۔
تاؤ چینگ جیسے بہادر ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں اور اپنے ملک اور قوم کی خاطر اپنی جان قربان کرتے ہیں۔ تمام نوجوانوں کو ایسی کتابوں کا مطالعہ جاری رکھنا چاہیے تاکہ وہ تاؤ چینگ کی زندگی کے مقصد کو آگے بڑھاتے ہوئے انقلاب کے میدان میں سامراجی قوتوں کو شکست دے کر اپنی قوم اور اس کی عزت و وقار کی حفاظت کریں۔ کوئی بھی کامریڈ جو کسی بھی تنظیم سے جڑا ہو اسے اپنی تنظیم کے آئین اور اصولوں کی حفاظت کرنی چاہیے اور ایسی جدوجھد کرنی چاہیے جو اشتراکی نظریات کی چھتری تلے ایک ایسے متبادل کو بنانے میں کامیاب ہوسکے جو ہر قسم کے استحصال اور جبر سے پاک ہو، ایک دوسرے کے مابین برابری اور محبت اور بھائی چارہ قائم کرے۔
اس ناول میں تاؤ چینگ کے علاوہ کئی دوسرے کرداروں جیسے شیا یئن، چینگ ہوا، پروفیسر وانگ اور چنگ چن کی بھی تعریف کی ضرورت ہے، جن کی جدوجہد ہمارے لیے سبق آموز ہے، اسی ناول میں جس لڑکی کا ذکر ہے اسکی لکھی گئی شاعری ان عظيم انقلابیوں کے نام جو دنیا بھر میں مظلوم و محکوم طبقات اور قومیتوں کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور لڑ رہے ہیں۔
!تاریک قيد خانے کے دروازت
تم کبھی راہ نہیں روک سکتے
سورج کى درخشان شعاعوں کی
!پیارے ساتھیو
سورج، پھول اور خوش گلو پرندے
اور من موہنی دوشیزائیں
سب تمہارے گیت گا رہے ہیں
ہاں سب تمہارے گیت گا رہے ہیں
اور اپنے گيتوں سے تاریک قید خانے کی دیواروں ميں چھید کئے جا رہے ہیں۔