رپورٹ/ عمار شہزاد
مورخہ تیس جولائی کو بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے یونیورسٹی میں کتابوں کی نمائش لگانے کی اجازت مانگی جس پر یونیورسٹی انتظامیہ نے اجازت دینے سے نا صرف انکار کیا بلکہ طلبہ کے ساتھ ناروا سلوک بھی کیا گیا۔ اس آمرانہ رویے کے خلاف جب طلبہ نے سریاب روڈ پر کتابیں رکھ کر احتجاج کیا تو وہاں بھی سیکیورٹی ادارے آگئے اور طلبہ کو ہراساں کرتے رہے۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ترجمان کا کہنا ہے کتاب ہماری میراث ہے۔ جس پر طلبہ کا حق ہے اور ہم اس حق سے کسی مافیا کے کہنے پر خود کو الگ نہیں کرسکتے، اور نا ہی کسی کو ہمارا کتاب سے رشتہ توڑنے کی اجازت دیں گے، ان کے اوچھے ہتھکنڈے طالب علموں کو تعلیمی سرگرمیوں سے نہیں روک سکتے۔
اس حوالے سے پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے صدر قیصر جاوید کی جانب سے اس واقعے پر بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کی گئ اور یونیورسٹی کے طالب علموں پر تشدد اور ناروا سلوک کی بھرپور مذمت کی گئی۔ مزید ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی ایسے اقدام پر روک تھام آمرانہ اور استعماری سوچ کی عکاسی ہے۔