میرو کو جب ایجنسی والے اٹھا کر لے گئے تو میرو کسی قید خانے میں زندہ بھی تھا، کنپٹی پر گولی کھا کر مر بھی چکا تھا، تشدد کا شکار بھی تھا، اور آرام سے مزے سے زندگی بھی گزار رہا تھا۔ ظاہری سی بات ہے کہ یہ سب مغالطے تھے جو اس کے پیاروں نے ایک حتمی جواب کی کمی کو پورا کرنے کے لئے گڑھ رکھے تھے۔ اصل میں میرو کہاں اور کیسا تھا یہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ میرو کو ایجنسی والوں نے کس دن اٹھایا یہ کسی کو یاد نہیں تھا، بس ابہام در ابہام تھے، سردیوں کا موسم تھا، بس سب کو یہ یاد تھا کہ میرو گرم شال اوڑھ کر گھر سے نکلا تھا۔
دراصل میرواکثر اپنے دوستوں کے ساتھ راتوں گھر سے باہر رہا کرتا تھاحالانکہ اب میرو ایک بچے کا باپ بھی بن چکا تھا جو ابھی نومولود تھا لیکن پھر بھی میرو کہاں کسی کےقابو میں آنے والا تھا۔ وہ تو بس اپنی موج مستی میں زندہ تھا، ایک بلوچ گبھرو نوجوان جو اپنی دھن کا پکا ایک عجیب سے جذبے سے سرشار دوسروں کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش میں مست جیا کرتا تھا۔ سارے خاندان میں مشہور تھا کہ میرو کا یونیورسٹی جانے کی وجہ سے دماغ چل پڑا ہے۔ اسی خوف سے اس کے ارد گرد بسنے والوں میں سے اکثر لوگوں نے اپنے بچوں کو یونیورسٹی نہ جانے دیا۔ ایک تو یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم فل کرنے کے بعد سے میرو بڑی موٹی موٹی بلکہ خطرناک باتیں کرنے لگ گیا تھا، کبھی جاگیرداروں کے خلاف، تو کبھی پنڈی والوں کے تشدد کے خلاف اور اب تو میرو بلوچوں کے حق کی بات اٹھاتا اور ان کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو بلوچ قوم کا غدار کہتا تھا۔ اس کے دوست بھی بالکل اس کے جیسے ہی تھے، کبھی کوئی کتاب بغل میں دبائے، منہ میں سگریٹ، بے ڈھنگے بال، اجڑی ہوئی داڑھی، پرانے پیوند لگےلباس میں ملبوس گھسے ہوئے چپل پہنے ہوئے، لیکن وہ سارے بہت بے زرر تھے، لڑکیوں کو ان سے ڈر نہیں لگتا تھا، بچے ان کے ساتھ کھیلتے، کئی ایک نے اپنی بہنیں یونیورسٹی پڑھنے بھیجیں، پسند کی شادی بھی کروا دی، کچھ شاعر تھے، کچھ انقلابی، لیکن یہ سب پرتشدد بالکل بھی نہ تھےبلکہ تشدد سے سخت نفرت کرتے تھے۔
میرو نے تو یہ تک کر دکھایا کہ اس کے اپنے کچھ دوست جو پہاڑوں پر جا کر لڑ رہے تھے ان کو واپس لے کر آیا۔ کچھ لوگ میرو کی اس حرکت پر سخت برہم تھےاس کو دھمکیاں ملنے لگیں، لیکن وہ میرو ہی کیا جو ڈر جاتا، بس مسکرا کر بات کو ٹال گیا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ آنی ہوگی تو آجائے گی، میں کوئی ڈرنے والا نہیں ہوں۔ اسی طرح ہنستے مسکراتے میرو کی زندگی میں سکینہ شامل کردی گئی۔
شروع شروع میں تو سکینہ کو میرو سے بہت ڈر لگتا تھا، لیکن پھر وقت کے ساتھ میرو نے سکینہ کو اپنا دوست بنا لیا، میرو اپنے ارد گرد بسنے والے روایتی لڑکوں جیسا نہیں تھا۔ وہ سکینہ کا بہت خیال رکھتا، اسے اپنی زندگی کے ہر معاملے میں شامل کرتا تھااور یوں ان کا رشتہ ایک خاندانی شادی سے اچھے دوست کا سفر طے کرنے لگی۔ سکینہ پیٹ سے تھی اس حالت میں جہاں اس علاقے کی عورتیں دن رات کاموں جُتی رہتی ہیں میرو نے سکینہ کو چارپائی سے اترنے تک نہ دیا اور پھر ایک دن ان کی زندگی میں ان کا ایک ننھا شہزادہ جام سجاد بھی آگیا۔ لوگوں نے میرو کو ڈرایا، سمجھایا کہ اب اس کا بیٹا بھی پیدا ہوگیا ہے تو اسے اب تھوڑی احتیاط کرنی چاہئے لیکن میرو تھا کہ کسی کی کیا سنتا، وہ اپنی دھن میں مگن، مست لگا رہا۔
میرو اخبار میں کالم بھی لکھا کرتا تھا، کچھ کان کنوں کو دہشتگردوں نے صرف مختلف فقہ ہونے کی وجہ سے ماردیا، میرو سے رہا نہ گیا اور اس نے ایک شدید جذباتی کالم لکھ ڈالا۔ ہمیشہ کی طرح پھر سے دھمکیاں ملیں، لیکن میرو نے کسی کی کچھ نہ سنی، اور پھر وہی ہوا جس کا سب کو ڈر تھا، ایک دن میرو گھر سے نکلا اور پھر کسی کو کچھ خبر نہ ہوئی کہ وہ کہاں گیا، کیوں گیا۔ عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ ایک ویگو ڈالا آیا اور میرو کو کچھ لوگ زبردستی اندرد ڈال کر لے گئے۔ یوں میرو کا شمار بھی ان ان گنت بلوچویوں میں ہوگیا جو گمشدہ تھے۔
پہلے دن تو سکینہ کو لگا شاید میرو اس سے مذاق کر رہا ہے۔ اس کو غصہ آتا، ہنسی بھی آتی، دل اور دماغ کی جنگ میں کرب کی کیفیت تھی کہ جسے وہ سمجھ نہ پارہی تھی رات کو اکیلی بیٹھتی تو لگتا کہ میرو نے مذاق کیا ہے لیکن جب سب کے درمیان ہوتی تو لگتا کہ اس نے میرو کو کھو دیا ہے اور یہی سوچ کروہ روئی بہت روئی لیکن پھر آنسو پونچھ کر دل کی مان لی اور پکا ارادہ بھی کر لیا کہ میرو آئے گا تو وہ اس کے کان کھینچے گی اور اس کی خوب پٹائی کرے گی۔
جب دو دن تک کوئی خبر نہ آئی اورمیرو کے دوستوں نے بھی کہا کہ میرو ہمارے پاس نہیں ہے تو سکینہ کو معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ اس نے محسوس کیا کہ شاید یہ واقعی مذاق نہیں ہے۔ اور تیسرے دن ان کے گھر میں ایک سوگ کا منظر تھا، سارے رشتہ دار اکٹھے ہو چکے تھے، عورتیں بین کر رہی تھیں، مرد چارپائیوں پر بیٹھے سگریٹ پینے کے ساتھ افسوس اور تاسف میں ڈوبے چہروے لیے بیٹھے دکھ بانٹنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے، میرو کا تایا، چھوٹا بھائی اور تایہ زاد ایف آئی آر کٹوانے تھانےگئے ہوئے تھے۔ سکینہ جو سب کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی اس کے کانوں نے پہلی بار کچھ ایسا سنا کہ اس کے تو رنگ اڑ گئے۔ ایسے مارتے ہیں ٹارچر سیل میں کہ کیا بتائیں۔ رضوان جو بازیاب ہوا تھا، بتاتا ہے برف کی سل پر رکھ کر کوڑے برساتے ہیں۔ اف توبہ توبہ، اللہ بچائے اس سب سے۔ وہ لاش دیکھی تھی جو اجتماعی قبر کے ساتھ ملی تھی، توبہ توبہ، سر گولیوں کے نشانوں سے چھلنی تھا۔ سکینہ کا دل یہ باتیں سن کر بیٹھ گیا، اور اس نے ہزاروں نوافل میرو کے لئے مان ڈالے۔ لیکن اس سب میں سکینہ کا سب سے بڑا دشمن وقت تھا۔ دن ہفتوں میں بدل گئے، ہفتے مہینوں میں، مہینے سالوں میں، لیکن میرو کی طرف سے یا کہیں اور سے کوئی ایک جنبش بھی نہ اٹھی۔ صرف کیا تھا، ایک خاموشی، ایک اندھے کوئیں کی جیسے خاموشی، ایک خلاء اور کچھ بھی نہیں۔
میرو کی ماں اکثر رات کو سونے سے پہلے دروازے کو دیکھتی، راتوں کو نیم نیند میں اسے لگتا کہ میرو آگیا ہے اور وہ نیند میں پکارتی، میرو، میرو آیا ہے، میرو آیا ہے۔ لیکن ہمیشہ کوئی نہ ہوتا، ہمیشہ پھر وہ روتی، اور پورے گھر میں ایک سوگ کا عالم چھا جاتا۔ حد تو یہ تھی کہ چھوٹا جام سجاد بھی اپنے باپ کی کمی کو محسوس کرتا، وہ کھلونے جو میرو اس کے لیے لایا تھا انہیں وہ کسی کو ہاتھ نہ لگانے دیتا اور بہت سنبھال کر رکھتا تھا۔ جب وہ اکثر اپنی توتلی آواز میں “بابا” کہتا تو سکینہ ٹھنڈی آہ لے کر جام سجاد کو اپنی گود میں لے لیتی اور پھر سے میرو کے جانے کا زخم مزید گہرا ہوجاتا۔
یوں وقت گزرتا رہا، ننھا جام سجاد گود سے نکل کر گلیوں میں دوڑیں لگانے لگ گیا، سکینہ کے بالوں میں چاندی چمک اٹھی، لیکن میرو کی کوئی اطلاع ان تک نہ پہنچی۔ سکینہ کی زندگی بھی عجیب تھی، وہ امید اور نہ امیدی کے بیچ میں زندگی گزار رہی تھی، کبھی اس کو لگتا کہ میرو زندہ ہے، کبھی لگتا کہ وہ مرچکا ہے، کبھی اس کو غصہ آتا، کبھی افسوس اور دکھ اس کو گھیر لیتے، کبھی اس کا جی کرتا کہ یہ سارے لوگ جو پیاروں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہونا چاہئے۔ لیکن سکینہ کی زندگی کا بیشتر وقت میرو کی تلاش میں گزرتا۔
میرو کا بھائی جو کہ دوبئی میں ہوتا تھا کچھ عرصے آیا اور میرو کو ڈھونڈنے کے لئے تگ و دو کرتا رہا لیکن پھر اس کو بھی جانا تھا۔ یہی حال میرو کے چاچے اور تائے وغیرہ کا تھا۔ پھر جب سب کو اندازہ ہوا کہ گمشدہ افراد کے بارے میں پوچھنا خطرناک بھی ثابت ہوتا ہے تو سارے ایک ایک کرکے پیچھے ہٹتے گئے۔ آخر میں رہی تو سکینہ یا میرو کی ماں۔ میرو کا باپ پہلے ہی فوت ہوچکا تھا اسی وجہ سے اب تھانے کچہری کے دھکے کھانے کا ذمہ سکینہ پر پڑ گیا۔ کبھی وہ ایک کمیشن جاتی، تو کبھی دوسرے، کبھی تھانے تو کبھی کسی وکیل کے پاس، لیکن اس کی عرض پر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
اس سب کے دوران میرو کی ماں کو میرو ہر جگہ نظر آنے لگ گیا۔ اس کو ہر وقت لگتا کہ میرو دروازے پر دستک دے رہا ہے، یا باہر ہے۔ کبھی اس کو میرو کی آواز سنائی دیتی تو کبھی میرو خواب میں آتا اور وہ بہت تکلیف میں ہوتا، تو کبھی وہ بہت عیش و عشرت سے زندگی بسر کر رہا ہوتا۔ اس کی ماں کو لگتا کہ یہ سب غیب سے اس کو اشارے مل رہے ہیں، لیکن بحرحال میرو کی پھر بھی کوئی خیر خبر نہ مل سکی۔ ایک دن میرو کی ماں اور سکینہ کہیں جا رہے تھے کہ میرو کی ماں کو میرو نظر آیا اور وہ اس کے پیچھے بھاگ پڑی، اس نے ایک طالب علم کو پکڑا اور اس کو گلے لگا کر رونے لگ گئی، میرا بچہ کہاں تھا تو، تیری ماں کتنا تڑپ رہی ہے تیرے لئے، چل آ گھر چل، کتنا کمزور ہورہا ہے تو؟ اس نے جوان طالب علم کا ہاتھ ایسے پکڑا کہ وہ کہیں چلا نہ جائے، طالب علم بولتا رہا، ماں جی، آپ مجھے کوئی اور سمجھ رہی ہیں، میں وہ نہیں ہوں۔ سکینہ نے بڑی مشکل سے اس طالب علم کو میرو کی ماں سے چھڑوایا اور واپس گھر کا سفر بڑی مشکل سے طے کیا، پورے رستے میرو کی بوڑھی ماں بین کرتی رہی اور روتی رہی کہ میرا بچہ، میرا بچہ کہاں ہے؟
ایک طرح سے وقت بھی میرو کی ماں پر مہربان ہوگیا، اس واقع کے بعد اس کی طبعیت خراب سے خراب ہوتی رہی اور ایک رات وہ اٹھی اور اس نے اول جلول باتیں کرنا شروع کردیں، میرو میرا بیٹا، میرو آیا ہے، میرو آیا ہے۔ سکینہ دیکھ، باہر دیکھ میرو آیا ہے، جا کھانا گرم کر، آ ادھر آ میرا بیٹا میرے پاس بیٹھ ، مجھ سے باتیں کر، آ میں تیرے بالوں میں ہاتھ پھیروں، انہی باتوں کے دوران اس کے کندھوں میں شدید درد ہونا شروع ہوگیا، جلدی سے ساتھ والوں کے لڑکے کو رکشہ لینے بھیجا گیا اور رکشے میں بیٹھ کر میرو کی ماں کو ہسپتال لے کر گئے، لیکن راستے میں میرو کی ماں بیہوش ہوگئی اور ہسپتال پہنچ کر پتہ چلا کہ وہ اللہ کو پیاری ہوچکی ہے۔ دیکھنے پر سکینہ کو لگا جیسے اس کی لاش بھی کسی کے انتظار میں ہے۔ جنازہ ہوگیا، پھر سارے آئے اور تدفین ہوئی، سکینہ کے گھر والوں نے اصرار کیا کہ میرو کو بھول جا، کسی اور سے تیری کی شادی کرادیں گے، لیکن سکینہ نہ مانی کیونکہ میرو اس کا شوہر نہیں دوست تھا ایسا دوست جس نے سکینہ کو ہونے کا احساس دیا اس کی ہستی کو معتبر جانا سکینہ نے ٹھان لی کہ وہ میرو کا پتہ لگا کر ہی رہے گی اسے ڈھونڈ کر واپس لے آئے گی۔
سکینہ نے کمیشن کے بڑے عہدیدار سے ملنے کی ٹھان لی، لیکن یہ بالکل بھی آسان نہ تھا۔ میرو کا بھائی جس نے سکینہ اور اس کے بچے کے اخراجات اٹھائے ہوئے تھے نے سکینہ کو بھائی کی تلاش کرنے کے لئے مزید پیسے بھجنے شروع کردیئے اور سکینہ کو بھی لاکھ جتن کرنے پڑے، لوگوں کو رشوتیں دینی پڑیں، ان کی منتیں کرنی پڑیں اور آخر کار وہ ادارے کے ڈائڑیکٹر سے ملنے میں کامیاب ہوئی۔ سکینہ کو لگا کہ جیسے وہ اپنے مسیحا سے مل رہی ہو۔ حالانکہ اس کو لوگوں نے سمجھایا تھا کہ وہ ایک نمبر کا ٹھرکی بڈھا ہے اور اس معاملے میں کافی بدنام ہے۔ لیکن سکینہ کے دل میں امید کی ایک کرن سی اٹھی کہ شاید یہ مسیحا سکینہ کو اس کا میرو واپس دلا دے۔ ملاقات والے دن سے پہلے کی رات سکینہ سو نہیں پائی اور پوری رات اس کے دل میں عجیب خیال آرہے تھے، اس کو لگا کہ جیسے شاید وہ اس کو بتا دیں کہ میرو مر چکا ہے، پھر وہ کیا کرے گی؟ اس طرح کے ہزاروں وسوسے اس کے ذہن میں اٹھے۔ صبح جب وہ کمیشن کے دفتر پہنچی اور ڈائڑیکٹر کے سیکرٹری نے اسے بیٹھنے کا کہا تو وہ ایسے شاہانہ ماحول کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس کے چھوٹے سے گھر کے برعکس دفتر بہت عالی شان تھا، اس میں اے سی بھی لگا ہوا تھا اور روشنی تھی کہ ہر شے جگمگا رہی تھی۔ سکینہ کا دل دھڑکنے لگا، اس کو لگا کہ جیسے وہ اس سب میں اپنے پسینے کی بدبو میں عجیب لگ رہی ہے، جیسے ابھی کوئی چوکیدار آکر اس کو دھکے دے کر نکال دے گا۔ وقت آیا اور سکینہ کو گھنٹوں انتظار کرنے کے بعد ڈائریکٹر کے کمرے میں لے جایا گیا۔
ڈائریکٹر: ہاں بھئی بی بی، کیا مسئلہ ہے تیرا؟
سکینہ: ڈائریکٹر صاحب میرا بندہ گم ہے، سالوں بیت گئے ہیں کوئی پتہ نہیں کہاں ہے۔ اس کا نام میرو ہے جی۔ آپ کو اللہ کا واسطہ میرے شوہر کا پتہ کر دیجیے، اور ساتھ ہی رونے لگی۔
ڈائریکٹر: (بے زاری سختی سے جواب دیتے ہوئے) ارے بی بی چپ کر رونا بند کرو، وہ کہیں بھاگ گیا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں ۔ ہم نے کوئی ٹھیکہ لیا ہوا ہے؟ ہر بندہ ہمارے پاس منہ اٹھا کر آجاتا ہے۔ (اب زرا نرمی سے بات کرتے ہوئے ) دیکھ بی بی جو چلا گیا اس کو کیا رونا تو ابھی جوان ہے خوبصورت ہے تجھے کیا ضرورت ہے بندے کی، لاکھوں مل جائیں گے تجھے تو ہاں کر تو سہی۔
سکینہ: شدید غصے میں آتی ہے۔ اور وہاں سے تقریبا بھاگتے ہوئے باہر نکل جاتی۔ دفتر سے گھر تک کا راستہ بہت طویل ہوگیا تھا اور پورے راستے سکینہ یہی سوچتی رہی کہ اس کا اور جام سجاد کا آخر کیا مستقبل ہے اگر میری لاش کو گدھ نوچ لے گئے تو جام سجاد کا کیا بنے گا گھپ اندھیرے میں بھٹکنے اور ننگے سر اور ننگے پاؤں دھوپ میں جھلسنے کا ملا جلا احساس دماغ میں ہتھوڑوں کی برسات کر ہا تھا؟ وہ دونوں تنِ تنہا اس دنیا میں کیسے جی پائیں گے؟ اب کے جب میرو کی ماں بھی نہیں رہی اور اس کے بھائی کا بھی پاکستان سے کوئی ناطہ نہیں رہا۔ اس سب میں وہ کیا کریں گے؟
لیکن وقت پھر بھی کٹتا رہا۔ سکینہ مختلف گروہوں کا حصہ بن گئی، ایسے گروہ جو گمشدہ افراد کو بازیاب کرانے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ کبھی دھرنا دیتے، کبھی جلسے، جلوس نکالتے۔ ان میں سکینہ ایسے لوگوں سے ملی جو سالوں، دھائیوں سے اپنے پیاروں کے منتظر تھے۔ ان کا کرب جتنا شدید تھا سکینہ اس کو محسوس کرسکتی تھی۔ اب خود میرو کو گمشدہ ہوئے سات سال ہوچکے تھے، اس دوران سکینہ نے کیا کچھ نہیں سہا تھا اور کتنی جدوجہد کی تھی کہ اس کو کم از کم یہ پتہ چل جائے کہ میرو زندہ ہے یا مر چکا ہے۔ لیکن، اس سب کے باوجود اس کی کوششیں ناکام رہیں اور اس کا جذبہ مدہم سے مدہم ہوتا رہا۔ کیونکہ نعرے لگانے اور جلسے جلوسوں کے باوجود کچھ نہ بدلا سوائے اس کے کہ سکینہ ہر بار ایک نئے جذبے سے جاتی اور ہر بار پچھلی مرتبہ سے زیادہ ناامید ہو کر لوٹ آتی۔ سکینہ نے اسی دوران لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کردیا اور ساتھ جام سجاد سکول جانا شروع ہوگیا۔ اب سکینہ کو کوئی آس نہیں تھی کہ میرو واپس آئے گا، یا وہ زندہ بھی ہے۔ سکینہ نے ان دیکھی طاقتوں کے سامنے ہار مان لی تھی جو بغیر چہروں کے لوگوں سے لمحوں میں ان کی زندگیاں چھین لیتے ہیں۔ سکینہ یہ بات خود سے بھی چھپاتی تھی لیکن، اس کے اندر ایک گہرا خوف تھا کہ اگر میرو واپس آبھی گیا تو کیا وہ ویسا ہی ہوگا؟ اس نے کچھ لوگ دیکھے تھے جو واپس آئے تھے، ان کی رالیں بہتی رہتی تھیں اور وہ اپنے حوش و حواس کھوچکے تھے، حد تو یہ تھی کہ ان کو باتھ روم بھی لے کر جانا پڑتا تھا۔ سکینہ یہ سوچ کر گھبرا سی جاتی کیونکہ وہ میرو کو مفلوج اور محتاج حالت میں دیکھنے کی ہر گز خواہاں نہ تھی اس کے باوجود پھر بھی وہ یہی سوچتی کہ کیا کبھی اس کا میرو واپس آئے گا یا اسی طرح اندھے کنواں میں رہے گا جہاں نہ تو کوئی جاسکتا ہے اور نہ کوئی آ سکتا ہے۔