ہمارے معاشرے میں جب بھی معاشی و سماجی پسماندگی کی بات ہو تو اکثر “دانشور” اور لوگ مغرب کی ترقی اور اس سے سیکھنے کا سبق دیتے یاد آتے ہیں۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہ صرف مغرب کی نام نہاد ترقی کے پیچھے استعماری لوٹ مار سے نا واقف ہیں بلکہ ابھی تک سامراج کی جانب سے کیے گئے اس پروپیگنڈے کا بھی شکار ہیں جس میں سامراج نے خود کو تہذیب یافتہ اور اپنے محکوموں کو جاہل ہونے پر قائل کیا تھا۔
برطانیہ نے برصغیر پر 190 سال بالواسطہ اور بلاواسطہ حکمرانی کی۔ تحقیق کے مطابق اس دورانیہ میں انھوں نے برصغیر سے 45 ٹرلین ڈالر سے زائد رقم ہتھائی۔ اس حصول کے لیے برطانیہ نے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے۔
پہلا ذریعہ برصغیر کے عوام پر تقریبا ہر ضرورت زندگی کی اشیا پر بھاری ٹیکس لگانا تھا۔ دوسرا اہم ذریعہ برطانیہ میں بنی اشیا کی برصغیر میں فروخت تھا۔ جس کے لیے سامراج نے برصغیر کی صنعت تباہ کی تا کہ مقامی لوگ کوئی چیز بنا کر نہ بیچ سکیں بلکہ اپنی ضروریات کی اشیا بھی برطانیہ سے خریدنے پر مجبور ہوں۔
اٹھارویں صدی میں عالمی معیشت میں برصغیر کا حصہ 23 فیصد تھا۔ یہ حصہ تمام یورپ سے زیادہ تھا لیکن 1947 میں عالمی معیشت میں یہ حصہ کم ہو کر صرف 3 فیصد رہ گیا۔ اس کی وجہ برطانیہ کے ہاتھوں برصغیر کی مقامی صنعت کا تباہ ہونا تھا۔ برصغیر کا بنا کپڑا، سٹیل اور دیگر کئی اشیا ساری دنیا میں مقبول تھیں۔ برطانیہ کی صنعت کے چلتے رہنے کے لیے اس صنعت کا تباہ ہونا ضروری تھا اس لیے انھوں نے مقامی صنعت کو تباہ کر دیا۔ مزید یہ کہ برطانیہ کی بنی اشیا تو برصغیر آ سکتی تھیں۔ لیکن برصغیر کی بنی اشیا برطانیہ نہیں جا سکتی تھیں۔ اس عمل میں سامراج اتنا آگے چلا گیا کہ بنگال میں اچھا کپڑا بنانے والے کاریگروں کے انگوٹھے کٹوا دیے گئے۔
سامراج نے نہ صرف ہمارا معاشی استحصال کیا بلکہ ہماری تاریخ کو مسخ کر کے ہمارے ماضی کو بھی قابل شرم بنا کر پیش کیا۔ انھوں نے نصاب کے ذریعے مقامی افراد کو وحشی اور جاہل جبکہ خود کو اعلی و محنتی ثابت کرنے کی کوشش کی جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے۔ پشاور و کوہاٹ قتل عام، جلیانوالہ قتل عام، قحط بنگال جیسے واقعات مقامی افراد کی جانب سامراجی رویہ کی عکاسی کرتے ہیں۔
یہ سب سامراج نے اپنے ہاتھ سے نہیں کیا بلکہ اس کے لیے مفاد پرست مقامی لوگوں پر مشتمل چند طبقات کی تشکیل کی جس میں جاگیردار، بیوروکریسی، فوج اور تاجر طبقہ شامل ہے۔ یہ لوگ جسمانی طور پر تو مقامی تھے لیکن ذہنی طور پر انگریز تھے۔ یہ لوگ ذاتی مفاد کی خاطر اپنے ہی لوگوں کے استحصال اور قتل عام میں آلہ کار بنے۔
جب برطانیہ ہندوستان سے گیا تو سامراج کے بنائے ہوئے طاقت کے ان رشتوں کو توڑنے کی اشد ضرورت تھی۔ تاکہ معاشی اور سماجی نا ہمواریوں کو ختم کر کے ایک نئے سماج کی بنیاد رکھی جاتی۔ مزید یہ کہ سامراج کے بنائے گئے قوانین اور اداروں میں ترمیم و اضافہ بھی بے حد ضروری تھا۔
لیکن بدقسمتی سے برصغیر خاص طور پر پاکستان میں استعماری ڈھانچہ کو جوں کا توں برقرار رکھا گیا۔ جس کی وجہ سے نہ صرف معاشی نا برابری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بلکہ سامراج کے تشکیل کردہ اداروں اور طبقوں کے ہاتھوں عوام کا استحصال ابھی تک جاری ہے۔ سامراج کے یہی سہولت کار آج سیاست و معیشت پر قابض ہیں۔ ابھی بھی عوام کے ساتھ ریاستی اداروں کا سلوک استعماری رویہ کی جھلک ہوتا ہے۔ بلکہ یہی نہیں ان استحصالی طبقات میں ایک اور اہم اضافہ ہو چکا ہے جو کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جو انھیں طبقات کے ساتھ مل کر سامراجی مفاد کو نئی جہتوں کے ذریعے روا رکھے ہوئے ہیں۔
بقول اقبال احمد
“مابعدا استعماری ریاست استعماری ریاست کی ہی ایک بری شکل ہے، مابعد استعماری ریاست کا ڈھانچہ بالکل وہی ہے۔ یعنی ایک جگہ مرکوز طاقت، پدرپرست افسر شاہی، جاگیرداروں اور فوج کا اتحاد۔ ریاست کا ڈھانچہ تو وہی ہے لیکن نئے مسائل جنم لے چکے ہیں اور یہ پرانا نظام ان کو حل کرنے کے قابل نہیں۔”