کوئی ہماری بھی داستاں سنے ، کوئی ہمیں بھی اپنا کہے

کوئی ہماری بھی داستاں سنے ، کوئی ہمیں بھی اپنا کہے

انضمام معراج

قارئین ! طلبہ اس مملکت خداداد و نو پید ریاست مدینہ کے مظلوم ترین باسی ہیں ۔ جیسے کوئی ماں بچہ جن کے اسکی تربیت سے انکاری ہو ویسے ہی یہ بھی طلبہ کی زمہ داری لینے سے انکاری ہو چکی ہے ۔ کسی بھی حکمران کے لیے پہلا اور اہم مقصد ریاست کے مستقبل کی تعمیر کرنا ہوتا ہے نا کہ منہدم کرنا ۔ مگر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ مستقبل کی تعمیر ہماری کبھی بھی ترجیح نہیں رہی ۔

بلکہ ترقی سے انکاری ہم تنزلی سے یوں عشق رچائے بیٹھے ہیں گویا ہیر رانجھے کو منہ چڑانا مقصد بن گیا ہو ۔ پچھلی دو دہائیوں سے ہم نے انتہائی تندہی سے کام کرکے ایک ایسا تعلیمی نظام رائج کیا ہے کہ جس نے دماغوں کو مقفل کر کے رکھ دیا ہے ۔

آج طلباء کے مسئلہ پہ بات کرنے والا کوئی ذی روح سیاستدان ہمارے معاشرے میں وجود نہیں رکھتا ۔ ہمارا یہ ہنر ہے کہ ہم ہمیشہ نئی تعمیر کے نام پہ پہلے سے بنی عمارت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ گویا تعمیر کا الاپ انہدام پہ ختم ہو جاتا ہے ۔ بدقسمتی سے تعلیمی نظام کی بہتری کے مسئلے کو تجربہ گاہ سمجھ لیا گیا ہے۔ ہم مسئلہ حل کرنے کی بجائے نئے تجربے کرنے کا شغل کرتے ہیں اور چلتے بنتے ہیں۔

طلبہ کسی بھی تعلیمی نظام کی تعمیر و ترقی میں ایک ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر ہماری بد قسمتی دیکھئے کہ تمام حکمران اس بنیادی عنصر کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں اور موجودہ بھی نابلد ہیں ۔ جس معمار کو عمارت کے نقشے کا درست علم نا ہو وہ سوائے عمارت کے کچھ بھی بنا سکتا ہے ۔ سو ، جب بھی تعلیم کی بات ہوتی ہے تو طالب علم کو زیر بحث لائے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی ۔ جب تک اس بنیادی ستون پہ توجہ نہیں دی جاتی کسی بھی تعلیمی نظام کی کامیابی کے خواب دیکھنا شیخ چلی کے خوابوں کے مصداق ہے ۔

ہمارے حکمران یہی بنیادی غلطی کرتے آئے ہیں اور موجودہ حکمران بھی اسی ڈگر پہ قائم ہے۔ ماضی میں ذولفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں طلبہ کے فلاح و بہبود کی مد میں کچھ اقدامات اٹھائے گئے تھے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان اقدامات کو ویسے ہی اٹھا لیا گیا ۔ تعلیمی تباہی کی مد میں اس حکومت نے آتے ہی پہلا مبارک قدم ایچ ای سی کے بجٹ میں کٹوتی کرکے اٹھایا ۔ یونیورسٹیوں کی فیسیں بھی بڑھا دی گئیں۔ ہمارا معاشرہ جو کہ اپر کلاس ، مڈل کلاس اور مزدور طبقے میں بٹا ہوا ہے ، اس پہ اسکے لازمی اثرات کو پس پشت ڈال دیا گیا ۔ آئیے ہم ذرا طبقات میں بٹے طالب علموں کے فرق کو سمجھیں ۔

اب اپر کلاس کا طالب علم تو پہلے ہی پرائیویٹ جامعات میں پڑھتا ہے ۔ باقی سرکاری جامعات کے طالب علموں کی اکثریت نچلے دو طبقوں سے تعلق رکھتی ہے ۔ اب ان میں بھی تقسیم ہے اور دو حصوں میں بٹے طالب علم ہیں ۔ ایک وہ جن کے ماں باپ جمع پونجی و کمیٹیاں ڈال کر فیسیں اور باقی اخراجات پورے کرتے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو دن رات محنت کرتے ہیں ، نمبر لیتے ہیں اور سکالرز شپ پہ داخلہ لے کر آتے ہیں۔ اور انھی میں سے وہ طالب علم ( خصوصاً مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے) جو بہتر نمبر نہیں لے پاتے یا سکالرز شپ حاصل نہیں کر پاتے وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام کاج کرکے اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ جن میں جامعات کی فیسیں ، ہاسٹل کا کرایہ اور باقی روزمرہ کے اخراجات شامل ہیں۔

ایسی صورت میں طلباء کی ویلفیئر کے اقدامات انتہائی ضروری ہیں مگر ہمارے ہاں الٹا سروائیول بھی مشکل تر کیا جا رہا ہے ۔ اب اس وقت جب پوری دنیا وبا کی وجہ سے جنگی صورتحال کا شکار ہے تو دو طرح کے اقدامات کرنے کی ضرورت تھی ۔ ایک خالصتاً صحت عامہ کے اقدامات اور دوسرے معاشی اقدامات ۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ یہی نچلے دو طبقے متاثر ہورہے ہیں۔ گویا جسے وبا نے منہ نہیں لگایا اسے بھوک آ چمٹی ہے ۔
اس تصویر کا دوسرا رخ گندم کی خریداری بھی ہے ۔ اس طبقے کی اکثریت سال بھر کی گندم اکٹھی لے کر ذخیرہ کرتی ہے ۔ یہ گندم کی خریداری کے لیے جمع پونجی خرچ کرتے ہیں۔ اب جب جامعات فیسیں طلب کر رہی ہیں تو یہ طبقہ بیچ منجدھار کھڑا ہے اور پس رہا ہے ۔

حکومت کو اس صورتحال کا مداوا کرنے کے لیے فیسوں کو کم از کم دو تین ماہ کے لیے موخر کر دینا چاہیے تھا ۔مگر ہمیشہ کی طرح قربان ہمارے حکمرانوں کی دانش پہ جو مثالی تعلیم کا الاپ کرتے تھکتے نہیں ہیں مگر اصل میں وہ اسکی ا،ب سے بھی نابلد نظر آتے ہیں۔

ان سماجی مسائل کی موجودگی میں جو کہ سیدھا نفسیاتی صحت کو متاثر کرتے ہیں بہترین طالب علم تخلیق کرنا دیوانے کا خواب معلوم ہوتا ہے ۔ اور طلبہ کی ویلفیئر کے پہلو کو پس پشت ڈال کر کسی بھی معیاری تعلیمی نظام کی تعمیر کے خواب دیکھنا شاید کسی دیوانے کا اب تک کا سب سے بڑا خواب ہو ۔ اس صورتحال کا ایک اور دردناک پہلو اسکا لازمی نتیجہ ہے جس سے مڈل کلاس کے نوجوان کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول مشکل سے ناممکن ہوتا جارہا ہے ۔ جس سےمتوسط طبقے کی اکثریت کا نچلے طبقے کی طرف سرکنے کا بھی خدشہ ہے ۔
ہمیں ملحوظ رکھنا چاہیے کہ کسی بھی مسئلے سے آنکھیں چرانا نئے مسائل کو جنم دیتا ہے ۔ شتر مرغ کا ریت میں سر دبائے رکھنا طوفان کو روک نہیں سکتا ۔

اس وقت تمام عالمی اداروں نے دو سال کے لیے قرضوں کی اقساط موخر کر دی ہیں جبکہ عالمی منڈی میں پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی بھی حکومت کے لیے مفید ثابت ہوئی ہے جس سے حکومت کو طلبہ کو سہولت دینی چاہیے اس طبقاتی خلا کو پر کرنا چاہیے ۔ طلباء کی فلاح و بہبود کے بغیر معیاری تعلیمی نظام ممکن نہیں ہوسکتا اور معیاری تعلیم کے بغیر مستقبل کی تعمیر ممکن نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *