کرونا وائرس اور نوجوان

کرونا بحران اور نوجوانوں کا کردار

حسنین جمیل فریدی

آج کا نوجوان دنیا کے اُس اہم ترین عہد کا نوجوان ہے جس نے ایک منفرداور تغیّرات سے بھر پور زندگی کا حقیقی مشاہدہ کیا ۔ اس نوجوان نسل نے اپنی مختصر سی عمر میں دنیا میں رونما ہونے والی محیّرالعقول تبدیلیوں کو اپنی نظروں سے دیکھا جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی اپنے ساتھ وہ تبدیلیاں لے کر آئی جو صدیاں گزر جانے کے بعد عملی شکل میں دیکھنے کو ملیں۔ تیزی سے بڑھتی ٹیکنالوجی اور معاشرتی حقیقت نے اس نسل کو مادیت پرستی کی طرف راغب کیا جس نے اس نسل کو مقابلہ بازی، اور انفرادیت جیسے سرمایہ دارانہ نظریات کی طرف مشغول کیا۔

 

دنیا کا سب سے طاقتور ملک امریکہ، اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا اور طارق علی (1967طلبہ تحریک کے رہنماء) کے بقول اس وائرس کو سنجیدہ لینے کی ایک اہم وجہ اسکا یورپ اور امریکہ جیسے ممالک میں پھیلاؤ ہے وگرنہ تیسری دنیا میں اتنے لوگ روزانہ بھوک اور افلاس سے مرتے ہیں جس تعداد میں ان ممالک میں کرونا وائرس سے مر رہے ہیں۔

 

کرونا وائرس اور لاک ڈاون کی صورت حال

 

کرونا وائرس کے مزید پھیلاؤ سے بچنے کیلئے اس وقت پوری دنیا میں لاک ڈاون ہے جو یقیناً انسانی زندگیاں بچانے کیلئے از حد ضروری ہے۔ مگر اس لاک ڈاون کے باعث وہ تمام شعبہ ہائے زندگی متاثر ہورہے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کی پرتوں کے اندر پہلے ہی استحصال اور استبداد کا شکار تھے۔ کروڑوں کے بنک بیلنس کے حامل سرمایہ دار،تین سو روپے لینے والے دیہاڑی دار مزدوروں کو فیکٹریوں سے نکال رہے ہیں۔ کل ہی کی خبر ہے کہ ملکِ پاکستان کے مایہ ناز بزنس مین اور بیّک وقت بہت سی کمپنیوں اور بنکوں کے مالک،میاں منشاء نے نشاط کمپنی سے آٹھ سو مزدوروں کو فارغ کروا دیا ہے۔ اسی طرح لائم لائٹ، جنریشن، آؤٹ فٹرز (جیسے فرینڈز) اور ان مزدوروں کی محنت سے روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے کمانے والی کمپنیوں کے پاس اپنے ہی مزدوروں کو دینے کیلئے ایک ماہ کی تنخواہ نہیں ہے۔ گویا انکا اربوں کا سرمایہ محٖفوظ اور جوں کا توں رہے گا مگر انہوں نے بے پناہ دولت کے ہوتے ان محنت کش طبقات کو مشکل کی اس گھڑی میں لاوارث چھوڑ دیا جو کم اجرت کے باوجود انکے سرمائے میں اضافہ کرتے دن رات محنت کرتے تھے۔

 

دوسری جانب ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے پڑھی لکھی نوجوان نسل جو اس فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام کے تسلط کے باعث پہلے ہی بے روزگار یا کم اجرت پر کام کرنے پہ مجبور تھی اب مزید مشکلات سے دوچار ہونے والی ہے کیونکہ نیوریل روبینی جدید سرمایہ دارانہ معشیت کی حقیقت بتاتے لکھتے ہیں کہ

ہم بنیادی طور پر ایک ایسا نظام جاری رکھے ہوئے ہیں جہاں منافع نجی ملکیت سمجھا جاتا ہے جبکہ خسارا اجتماعی طور پر تمام سماج سے پورا کیا جاتا ہے

 

اس دلیل کے مطابق موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اس بحران کی قیمت مزدور طبقہ اور کم اجرت پر کام کرنے والے پڑھے لکھے نوجوانوں کو چکانی ہے۔ اس صورت حال میں بحران کے ٹل جانے کے بعد اجرتیں مزید کم، بے روزگاری میں ہوشربا اور مہنگائی میں شدید اضافے کا خدشہ ہے لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اس نظام کو تبدیل نا کیا گیا تو آنے والا وقت پریشانیوں کے اس شکنجے کو مزید سخت کر دیگا, بھوک سے بلکتی عوام سڑکوں پہ ہوگی ،اپنے بقاء اوراس نظام کے اندر اپنی سماجی حیثیت کا سوال کریگی وگرنہ اس کا دوسرا اور خطرناک نتیجہ انتشار، چوری ، ڈاکے ِ عوامی لوٹ مار اور عسکریت پسندی کی صورت نکل سکتا ہے۔

 

کرونا بحران اور طلبہ کے مسائل

 

ملکِ پاکستان کا حقیقی مستقبل تصور کئے جانے والا طبقہ یعنی طلبہ اس لاک ڈاون کے باعث شدید متاثر ہوئے۔ طلبہ یونین کی عدم موجودگی کے باعث یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومت نے ان کی آراء لئے بغیر ان پر اپنے فیصلے مسلط کئے اور آن لائن کلاسز جیسے مصنوعی پروجیکٹ تیار کئے گئے جس کی وجہ سے پسماندہ علاقوں( جہاں انٹر نیٹ کی سہولیات موجود نہیں )کے طلبہ کا تعلیمی استحصال کیا گیا۔ کاروبار ٹھپ ہونے کے باوجود ان سے فیسوں کا مطالبہ کیا جارہا ہے جبکہ پرائیویٹ ادارے فیسوں میں رعایت یا کمی کو تیار نہیں۔

 

طلبہ یونین پر پابندی کے باعث طلبہ کے پاس ایسے کوئی قانونی ذرائع نہیں جس کے ذریعے وہ حکومت وقت یا یونیورسٹی انتظامیہ کے سامنے اپنے مسائل گوش گزار کر سکیں۔ اس پڑھی لکھی نوجوان نسل کو سیاست سے باز رہنے کا سبق پڑھایا جاتا ہے گویا 18 سال کی عمر میں انہیں ووٹ دینے کا اختیار تو ہے مگر 25 سال کی عمر میں اپنے جائز حقوق مانگنے کیلئے طلبہ سیاست کی اجازت نہیں۔

 

کرونا بحران میں سیاسی عمل کی ضرورت

 

ہماری زندگیوں کے تمام مسائل ایک سیاسی و معاشی نظام کے پیدا کردا ہیں۔ لہذا غیر سیاسی ہوکر ان مسائل سے نظریں نہیں چرائی جاسکیں کرونا وائرس اور ماضی کے تمام مسائل کو غیر سیاسی ہوکر دیکھنے والے اور کچھ نہیں بلکہ سیاسی جاہل گردانے جاسکتے ہیں۔
برٹولٹ بیچ جہالت کی درجہ بندی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ

سب سے بڑا جاہل سیاسی جاہل ہوتا ہے، وہ نا بولتا ہے ، نا سنتا ہے اور نا ہی سیاسی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ اسے دال ، آٹے، چینی ، کرائے ، جوتوں اور ادویات حتیٰ کہ اپنی زندگی کی قیمت کا اندازہ نہیں ہوتا جن سب کا تعین سیاسی نظام اور سیاست دان کرتے ہیں۔ اگر سیاسی جاہل اپنی رائے نہیں رکھے گا، سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کریگا تووہ نا اہل نظام اوراس کے پیدا کردا کرپٹ حکمرانوں کو مزید مضبوط کریگا کیونکہ وہ نا بلد نہیں جانتا کہ اس کی سیاسی جہالت طوائف پیدا کریگی، بچوں کو بھوکا مارے گے، چور ، ڈاکو اور استحصال کرتی ملٹی نیشنل کمپنیاں پیدا کرے گی۔

 

کرونا وائرس موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں ایک چھلانگ ہے۔ وائرس کے ان حالات میں کئے گئے سیاسی فیصلے طے کریں گے کہ آنے والے وقت میں سیاسی و معاشرتی سفر کیا ہوگا اس بحران سے نکل کر ایک نئی دنیا تعمیرکرنے کی سمت کیا ہوگی؟ کیا انفرادیت پسندی پر مبنی اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اس بحران کا حل نکل پائے گا؟ یا اسکے متبادل کیسا نظام لایا جاسکے گا؟ یہ وہ تمام سوالات ہیں جس کا اثر اس نوجوان نسل اور آنے والی دیگرنسلوں پہ یقینی طور پر پڑے گا۔ لہٰذا اس صورت میں سیاست ، سیاسی عمل سے کنارہ کشی اور ان سوالات پرخاموشی جہالت کے سوا کچھ نہیں۔

 

کرونا بحران کے باعث سب سے زیادہ متاثرہ طبقات

 

جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے طبقات طلبہ ، مزدوراور محنت کش ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی استحصالی پالیسیوں کے باعث ایک طبقے(مزدور) کا حال تاریک ہے جبکہ دوسرے طبقے(طلبہ) کا مستقبل تابناکی کی جانب تیزی سے سفر کر رہا ہے۔ بد قسمتی سے ان دونوں طبقات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایک ملک کا 64 فی صد ہیں جبکہ دوسرا طبقہ 70 فی صد پر مشتمل ہے۔ لہذا موجودہ نظام سے ٹکراؤ اور اس فرسودہ نظام میں تبدیلی ان طبقات کی سیاسی مداخلت کے بغیر ممکن نہیں۔

 

کرونا بحران میں طلبہ اور نوجوانوں کی ذمہ داری

 

طلبہ اور نوجوانوں کو اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے دو طرح کی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو اپنے بنیادی تعلیمی حقوق کیلئے میدانِ عمل میں آنا ہوگا۔ آن لائن کلاسز، فیسوں میں ہوشربا اضافے ، تعلیم کی نجکاری اورتعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگاری جیسے بنیادی سوالات لے کر یونین سازی کے آئینی مطالبے کیلئے سرگرم ہونا پڑے گا۔ آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت اپنی سیاسی حیثیت کو بحال کرنے کے ساتھ ملکی سیاسی معاملات کو سمجھتے ہوئے انفرادی و اجتماعی کردار ادا کرنا ہوگا۔

 

معاشرے کا متحرک ، پرجوش اور تعلیم یافتہ طبقہ ہونے کے ناطے نوجوان طلبہ کی دوسری اور اہم ذمہ داری سماج میں پسے ہوئے دیگر طبقات کیساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ مزدور طبقہ جو اپنے روزمرہ کی معاشی پریشانیوں کی باعث براہ راست سیاسی عمل میں آنے سے قاصر ہے ،اس نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ استحصال کا شکار اس دیہاڑی دار طبقہ کے کیلئے آواز اٹھانے میں صفِ اول کا کردار ادا کرے ۔ اس فرسودہ نظام کے عوام اور نوجوان دشمن تضادات کو سامنے لیکر آئیں۔ اس نظام کی نا اہلیوں کا بغور مطالعہ کر کے ایک متبادل اجتماعی فلاحی نظام کا ناصرف تصور پیش کریں بلکہ اسکے اطلاق کیلئے سیاسی جدوجہد بھی کریں۔ آسان ،سادہ ، مہذب اور تحقیق پر مبنی تعلیمات سے پسماندہ طبقات کی سیاسی تربیت کریں۔ گلی محلے کی بنیاد پر مزدوروں اور نوجوانوں کی کمیٹیاں تشکیل دیں اور انکا آپس میں سیاسی رشتہ بنائیں۔ سماجی دوری رکھتے ہوئے سیاسی قربتوں میں اضافہ کریں۔ انکے ساتھ یکجہتی دکھانے کیلئے سب سے پہلامرحلہ ان کی معاشی مدد اور انہیں ضروریات زندگی کی اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے ۔ سماجی زمہ داری سمجھتے ہوئے انکے راشن کا بندوست کرنے کے ساتھ انہیں علم اور سیاسی سوچ سے ہمکنار کرنا بھی از حد ضروری ہے کیونکہ مزدوروں کو سیاسی شعور دیئے بغیر یا سیاسی عمل میں انہیں شامل کیے بغیر کسی بھی بڑی تبدیلی کا اندازہ لگانا غلط فہمی میں رہنا ہے۔

 

کہا جاتا ہے کہ انقلاب کے تین نشان۔۔.طلبہ مزدور اور کسان۔ یہ نعرہ اور اسکی عملی شکل شاید اس وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ بحران کے اس دور میں اگر طلبہ، مزدور ، محنت کش اور کسان مل کر سیاسی جدوجہد کا آغاز کریں اور اپنے طبقے کے ساتھ ہونے والے استحصال کے خلاف انفرادی لڑائی لڑنے کی بجائے اجتماعی حقوق کیلئے سیاسی جدوجہد کا آغاز کریں توانکا یہ سیاسی عمل ایک بہت بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *