طلبہ یونین ہی پہ پابندی کیوں؟

علم کے زیور سے آراستہ ہونا تمام بچوں کا حق ہے اور یہی طلبہ پڑھ لکھ کر ملک کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک کا تعلیمی نظام اتنا بوسیدہ ہوچکا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ سینکڑوں بچے سکولز سے باہر ہیں کالجز اور یونیورسٹیز میں وہ سہولیات میسر نہیں جو طلبہ چاہتے ہیں مگر یہاں طلبہ کو اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کا حق حاصل نہیں۔اگر کریں بھی تو انھیں طرح طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آج میرے ملک میں نان بائی ایسوسی ایشن تو ہے پرائیوٹ سکول ایسوسی ایشن تو ہے تاجر ایسوسی ایشن اور وکلاء ایسوسی ایشن تو ہیں مگر کسی کو مسئلہ ہے تو صرف طلبہ یونینز سے ہے آج ملک بھر میں طلبہ یونینز پر پابندی ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے طلبہ کو بھی اپنی آواز بلند کرنے کا حق حاصل ہے ایک ایسا پلیٹ فارم فعال ہونا چاہیے جہاں سے طلبہ اپنی بات اپنے مسائل کو حل کروانے کیلئے جدو جہد کرسکیں کیونکہ طلبہ ہی اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکتے ہیں اور یہ جنگ انھی کی ہے، کوئی اور ان کی مدد کو نہیں آئے گا کیونکہ یہاں لوگ مفاد پرست ہیں وہ صرف اپنی ذات اور ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں آج ملک کی بیشتر جامعات میں طلبہ کیلئے پینے کا صاف پانی میسر نہیں ٹرانسپورٹ کے نام پر فیس وصول کی جاتی ہے مگر دور دراز سے آنے والے طلبہ ٹرانسپورٹیشن کی سہولت سے محروم ہیں تعلیم کے ساتھ ایک ساز گار ماحول طلباء کیلئے ضروری ہے مگر جامعات میں کھیلوں کی سرگرمیوں کا کوئی نام و نشان تک موجود نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہی پرانا گھیسا پیٹا تعلیمی نصاب جو قیامِ پاکستان سے چلا ہوا آرہا ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور ایک منظم انداز میں طلبہ کی قائدانہ صلاحیتوں کو محدود کرنے کی سازش کی جارہی ہے جامعات کا کام طلبہ کو بہتر تعلیم دینے کے ساتھ ان کی کرئیر کونسلنگ کرنا بھی ہے مگر آج ہمیں اس حوالے سے نا کوئی ایونٹ نظر آتا ہے اور نذ ہی اس ضمن میں اساتذہ طلبہ کی کوئی مدد کرتے ہیں۔
بات ابھی ختم نہیں ہوئی ہمارے ملک میں تیزی کیساتھ پھیلتے جنسی ہراسانی کے واقعات نے اب تعلیمی اداروں کے ماحول کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ہم وکٹم کا ساتھ دینے کے بجائے وکٹم کو ہی ذمہ دار قرار دے دیتے ہیں ایک طرف تعلیمی نظام پہلے ہی بوسیدہ تو دوسری طرف یہ مسائل جن کا میں نے ذکر کیا تو اب آپ بتائیں کہ کیا طلبہ ان حالات میں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوسکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں ! مگر اب کیا کیا جائے ؟ کس طرح مسائل کو حل کیا جائے ؟ طریقہ کار موجود ہے مگر زبان بندی ہے آواز نہیں نکالی جاسکتی اگر نکالیں تو پھر مقدمات اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے صرف یہی نہیں بلکہ جامعات سے نکالے جانے کا خوف اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔ موجودہ حالات میں طلبہ یونینز کی اشد ضرورت ہے اگر آج طلبہ یونینز ہوتیں تو طلبہ کو ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا کیونکہ یونین مختلف کمیٹیاں بناتی تھیں ٹرانسپورٹ کمیٹی اسپورٹس کمیٹی لائیبریری کمیٹی وغیرہ اس طرح سہولیات کا معیار برقرار رکھنے میں بھی یونین بڑا اہم کردار ادا کرتی تھیں۔
پاکستان بھر میں طلبہ سڑکوں پر بھی نکلے طلبہ یکجہتی مارچ بھی کیا اپنے مطالبات سامنے رکھے جس میں پاکستان میں طلبہ یونینوں پر پابندی کا خاتمہ اور قومی سطح پر ان کے انتخابات اور مفت تعلیم کا مطالبہ شامل ہے طلبہ یونینز کے حوالے سے جو ایک تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ لوگ خطرناک ہوتے ہیں سیاست کرتے ہیں طلبہ کو تعلیمی عمل سے دور کرتے ہیں، غنڈہ گردی، مار دھاڑ اور تشدد کے عمل کو ہوا دیتے ہیں مگر یہ سب مفروضے اور گھٹیا باتیں ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ طلبہ یونین طلبہ کے مسائل کو اجاگر کرتی ہیں ان کے مسائل کے حل کیلئے پل کا کام کرتی ہیں دوسری طرف طلبہ کی تعلیم و تربیت کے ساتھ مثبت غیر نصابی سرگرمیوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے یونین سازی کا عمل طلبہ میں نہ صرف سیاسی اور انتظامی صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے بلکہ ایک ذمہ دار شہری شہری بننے میں بھی معاونت فراہم کرتا ہے 35 سال قبل 1984 میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں طلبہ یونینز پر پابندی عائد کی گئی پھر 1988 میں پیپلز پارٹی حکومت نے طلبہ یونینز سے پابندی اٹھا لی مگر پھر 1992 میں میاں نواز شریف کی حکومت میں ایک بار پھر طلبہ یونینز کو پابندی کا سامنا رہا 2008 میں بھی پیپلز پارٹی نے طلبہ یونینز سے پابندی ختم کرنے کا وعدہ کیا مگر پورا نہیں کیا 2017 میں پیپلز پارٹی نے طلبہ یونینز سے پابندی ختم کرنے کے لیے سینٹ میں قرارداد پیش کی جو منظور ہوگئ مگر قومی اسمبلی سے منظور نہ ہوسکی۔
درحقیقت طلبہ یونین پر پابندی مستقبل کی سیاست کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ یونینز کی بحالی کا مسئلہ برسوں سے تذبذب کا شکار ہے موجودہ حکومت کو چاہیے اس سلسلے میں طلبہ کی حمایت کریں
طلبہ یونین کی بحالی سے متعلق اقدامات کیے جائیں اور تعلیمی اداروں میں یونینز کے انتخابات کروا کر طلبہ کو انتظامی ڈھانچے کا حصہ بنایا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *