سماجی تحریکیں ، سیاسی حکمتِ عملی اور انقلاب 

سماجی تحریکیں ، سیاسی حکمتِ عملی اور انقلاب 

تحریر: حسنین جمیل فریدی

۔۔۔ 25 مئی 2020 صبح نو بج کر پندرہ منٹ، امریکی ریاست مینا سوٹا کے ایک بڑے شہر مینیا پولس میں گوری چمڑی والے پولیس افسر نے ایک سیاہ فارم شہری جورج فلائڈ کو راشن خرید کر بیس ڈالر بل ادا نہ کرنے کے جرم میں گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ گاڑی میں جانے کی بجائے فلائڈ نے زیر زمین گر کر رحم کی استدعا کی، گورے افسر نے منہ کے بل زمین پہ گری گردن پر زوردار پاؤں رکھ کر تقریباً نو منٹ سختی سے دبائے رکھا، فلائڈ بارہا چلاتا رہا کہ مجھے سانس نہیں آرہا

I Can’t Breath, Mommy, Please

مگر ظالم نے ایک نا سنی۔گورے پولیس افسر ‘ڈیرک شاون’ کے ساتھ موجود دو افسروں نے بھی فلائڈ کو ٹانگوں اور بازوں سے جکڑے رکھا جبکہ چوتھا افسر اردگرد موجود لوگوں کو قریب نا آنے اور انکے معاملات میں دخل اندازی نہ کرنے کی تنبیہہ کرتا رہا۔ یہاں تک کہ فلائڈ کی جان چلی گئی مگر مرنے کے تین منٹ بعد ابتدائی طبی امداد ملنے کے دوران بھی اس گورے جانور نے اس کی گردن سے اپنا پاؤں نہ ہٹایا۔

اردگرد کھڑے لوگ نسل پرستانہ جبر کے اس دردناک منظر کو دیکھتے ہوئے چلاتے رہے کہ وہ مر رہا ہے، اسے چھوڑ دو مگر سفید چمڑی والے ظالم کو رحم نا آیا ۔ لوگوں نے سارا واقعہ کیمرے میں عکس بند کیا اور انسانی حقوق کے جھوٹے علمبردار امریکہ کا بھیانک اور نسل پرستانہ چہرہ پوری دنیا میں بے نقاب ہو گیا۔ یوں انیسویں صدی کے وسط کی جامد سیاہ فارم حقوق کی تحریک بلیک لوز میٹر کے نام سے دوبارہ شروع ہوئی اور امریکہ سمیت یورپ، افریقہ اور ایشیاء سے ہوتی پوری دنیا تک پھیل گئی اور اسی طرح ہر جگہ نسل پرستی کی بنیاد پر ہونے والے تمام ریاستی مظالم کو چیلنج کیا جانے لگا۔

اس تحریک نے چھوٹے بڑے ممالک میں انسانی حقوق کی تمام تحریکوں کو زندہ کر دیا جہاں ہر مظلوم شناخت پر ریاستی ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ بھارت میں مسلمانوں ، کشمیریوں اور تمام نچلے طبقات پرہونے والے ظلم و ستم کونمایاں کیا گیا۔ پاکستان میں پشتونوں ، ہزارہ ، بلوچوں، خواتین اور مذہبی اقلیتیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو تقویت ملی۔ ہر ملک میں انسانی حقوق کے علمبرداروں نے ریاستی جبر کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔

اس صورتحال کے اندر بہت سے احباب ان تحریکوں کے تیز ہونے کے عمل کو عالمی انقلاب کی نوید سمجھ رہے ہیں مگر میری ناقص عقل یہ سمجھتی ہے اس واقعے کے بعد ان تمام تحریکوں کی رفتار میں تیزی تو ممکن ہے مگر انکی کامیابی ایک منظم اور براہ راست سیاسی عمل ،جمہوری لیڈر شپ یا سیاسی تنظیم کے ہی مرہونِ منت ہے۔
جدید سرمایہ دارانہ جمہوری ریاستیں ماضی کی کمزور بادشاہتوں سے کہیں زیادہ طاقتور اورپیچیدہ ہیں جہاں مقتدر سیاسی جماعتیں اسی نسل پرستی اور بنیاد پرستی کے فروغ سے وجود میں آئیں ہیں جن کے خلاف یہ تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ، برازیل میں بول سنارو، بھارت میں مودی اور پاکستان میں بلا واسطہ عمران خان اور بلواسطہ خاکی کپمنی کی حکومت مذہب، نسل پرستی اور رجعت پرستانہ سوچ کو پروان چڑھا کر وجود میں آئی ہے۔ پاکستان ہی کی سیاست خالصتاً جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ، مذہبی، علاقائی اور ذات پات کی بنیاد پر استوار ہے جہاں بڑے بڑے مذہبی لیڈران، سرمایہ دار اور اونچی ذات کے وڈیرے ایوانوں میں بیٹھ کر نسل پرستی، مذہبی انتشار اور رجعت پسندی کے افکار کو تقویت بخشتے ہیں ۔ ان کے پیروکاروں کی ایک بہت بڑی تعداد انکے اس عمل کا کھلِ عام دفاع کرتی نظر آتی ہے۔ ہمارے بیشتر حکومتی وزراء کا ایوان کے اندراپنے بیانات سے مذہبی منافرت اور نسل پرستی پھیلانا جبکہ بھارتی وزراء کا ٹی وی اور لوک سبھا میں مسلمان مخالف بیانات دینا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

بھارت کی حالیہ اینٹی سی اے اے (مسلمانوں کے حقوق) کی ایک بہت بڑی تحریک اس کی ایک واضع مثال ہے جہاں نوجوانوں نے کسی منظم سیاسی لائحہ عمل کے بغیر غیر جماعتی بنیادوں پر اقلیتوں کے حقوق کی تحریک شروع کی۔ اس تحریک نے بین القوامی سطع پر بہت پذیرائی حاصل کی اور پاکستان میں موجود بہت سے لوگوں کو یقین ہونے لگا کہ اس تحریک کے بعد ناصرف مسلمان مخالف تمام بل واپس لے لئے جائیں گے بلکہ یہ تحریک مودی حکومت کو بھی لے ڈوبےگی۔ مگر مودی کی نسل پرستانہ، رجعت پسندانہ سوچ کی حامل ہندوتوا حکومت نے دہلی میں دنگے اور فسادات کروا کر اس تحریک کی کمر توڑ دی۔انہی احتجاجیوں پر فسادات کے جھوٹے الزام لگا کر ایک ایک مسلمان نوجوان اور دیگر تحریکی لیڈران کو گرفتار کیا جارہا ہے اور ہمارے وہ ساتھی جو اس تحریک کو انقلاب سمجھ رہے تھے آج اپنے بھارتی کامریڈز پر ہوتے ریاستی جبر پرمکمل خاموشی سادھے ہوئے ہیں۔

آج کا دور جدید سرمایہ دارانہ جمہوریت کا دور ہے جہاں ریاست کے پاس بہت بڑے ہجوم کو منتشرکرنے کیلئے بے لگام طاقت، ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ جیسی ٹیکنالوجی پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے پاس جدید اسلحہ اور ریاستی سرپرستی کے ذریعے تشدد کرنے کا کھلا اختیار ہے، اور سب سے بڑھ کر سرمایہ دارانہ نظام کی وہ پیچیدگیاں بہت بڑی رکاوٹ ہیں جنہوں نے انقلابی سوچ کو معدوم کر کے رکھ دیا جہاں انقلابیوں کیلئے سب سے بڑا مسئلہ زندہ رہنے کیلئے روزگار کا حصول ہے۔ لہذا ان تحریکوں میں خاص مدت کے بعد اس جذبے کی بہتات پیدا ہو جاتی ہے جس جذبے کی بنیاد پرماضی میں انقلابات رونما ہوئے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ احتجاج اور تحریکوں کا طریقہ کار تبدیل ہو چکا ہے، اسکی تھیوری میں ایک واضع تبدیلی آچکی ہے اور روائتی طرز احتجاج بدل چکا ہے۔

آکوپائی وال سٹریٹ، تحریک کے ایک کارکن ریڈیارڈ گرفٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ
“جب ہم احتجاج کرتے تھے تو ہمیں لگتا تھا کہ پولیس ہم پر حملہ نہیں کر پائے گی کیونکہ ہم خود مختار (عوام) مقتدر ہیں، ہمیں احساس ہوا کہ یہ سچ نہیں ہے کیونکہ ہمارے معاشروں میں خود مختاری ان کو دی جاتی ہے جو یا تو انتخابات جیت جاتے ہیں یا جنگیں جیتتے ہیں۔”

دو ہزار تین میں امریکہ میں ہونے والے انٹی وار مار مارچز دو ہزار آٹھ کے عالمی معاشی بحران کے بعد آکوپائی وال سٹریٹ تحریک ، دو ہزار دس سے بارہ تیونس سے شروع ہونے والی بہت بڑی تحریک عرب سپرنگ، دو ہزار بھارت میں انا ہزارے کی سربراہی میں چلنے والی اینٹی کرپشن کی تحریک ، حالیہ اینٹی سی اے اے جیسی تحریکوں کے کمزور، سست یا کامیاب نا ہونےکی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہاں کی ریاستوں نے کسی نا کسی طرح انہیں کنٹرول کر لیا۔ اور یہ تحریکیں کوئی بھی حقیقی تبدیلی لائے بغیر صرف ماضی کے اوراق تک محیط ہیں۔

میری سوچ کو ردِ انقلاب کی سوچ ہر گز تصور نا کیا جائے شاید یہ دور انقلاب کیلئے سب سے موزوں دور ہے جہاں انٹر نیٹ اور گلوبلائزیشن کی وجہ سے انقلابی سوچ ایک مخصوص علاقہ سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ اس دور میں سماجی حقوق کی چلنے والی تمام تحریکیں نہایت اہمیت کی حامل ہیں مگر انہیں مزید منظم اور جدید بنیادوں پہ استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ ان تحریکوں کو مکمل لائحہ عمل کے ساتھ سیاسی تنظیم میں آنا ہوگا جہاں ان کے مخالف نظریات کو عوامی اور سیاسی سطع پہ چیلنج کیا جا سکے اور عوامی طاقت سے ہی اقتدار میں آکر نسل پرستی اور رجعت پسندی کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ لہٰذا سیاہ فارم تحریک سمیت تمام تحریکوں سے بنیادی تربیت یافتہ سیاسی کارکنان اور لیڈر شپ تیار کر کے انہیں جدید ریاستی سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا ہوگا تا کہ انہیں مزید منظم کر کے سیاسی حکمت عملی کے ذریعے اقتدار میں لایا جاسکے۔ یقیناً اس کے کامیاب نتائج کیلئے مزید وقت اور منظم جدوجہد درکار ہے تا کہ ان ظالم سرمایہ دارانہ حکومتوں سے انصاف کی امید رکھنے کی بجائے خود اقتدار میں آکر ایک منصفانہ سماج کی بنیاد رکھی جا سکے۔
تحریر: حسنین جمیل فریدی

https://thestudentsherald.com/2020/06/07/سماجی-تحریکیں-،-سیاسی-حکمتِ-عملی-اور-ان/

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *