آزادکشمیر کا گرتا ہوا معیارِ تعلیم

آزادکشمیر کا گرتا ہوا معیارِ تعلیم

( قیصر جاوید)

تعلیم کسی بھی معاشرے کی قسمت سنوارنے کی کنجی ہے۔ آج کے دور میں تعلیم کا بڑھتا ہوا رججان یہ واضح کرتا ہے کہ ہمارا سماج بھی قسمت سنوارنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔ جس محلے میں جہاں اکاّ دکاّ تعلیم یافتہ نوجوان نظر آتے تھے، آج وہاں بیسیوں ویسے ہی نہیں بلکہ اس سے اچھے اداروں سے پڑھے لکھے نوجوان موجود ہیں۔ لیکن پھر بھی معاشرہ آگے بڑھنے اور ترقی کی منازل طے کرنے کے بجائے پسماندگی اور اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ معیاری نظامِ تعلیم کا نا پید ہونا ہے۔

یہ مسئلہ نہ صرف پاکستان کا ہے بلکہ پاکستان زیرِ انتظام کشمیر کے حالات بھی مختلف نہیں ہیں۔ یہاں بلاشبہ شرحِ خواندگی پاکستان کی دیگر اکائیوں سے نسبتاً بہتر ہے لیکن معیاری تعلیم ناپید ہے۔ یہاں بظاہر سکول، کالجز توجگہ جگہ نظر آتے ہیں لیکن وہ بنیادی اور اہم ضروریات سے محروم ہیں۔ نجی اداروں میں تو کچھ سہولیات میسر ہیں لیکن سرکاری اداروں کی حالت خود کی سرکار جیسی ہے۔

معیاری نظام تعلیم میں سب سے بڑی اور اہم رکاوٹ انگریز سرکار کا دیا ہوا وہ نظام ہے جس سے صرف رٹنے والے طوطے پیدا کیے جاتے تھے جو انگریز سرکار کی ملازمت بغیر کسی اگر مگر کے قبول کریں۔ انگریز سرکار توستر سال قبل چلی گئی لیکن لوگ ویسے ہی نوکر بننے کی تیاری میں زندگی تباہ کر رہے ہیں۔ آج بھی افسر شاہی کے نام پر نوکر پیدا کرنے والی فیکٹریاں رائج ہیں لیکن ان فیکٹریوں کے مال کی کھپت کہیں نہیں ہو رہی۔

تنقیدی سوچ جو معاشرے کو نئے زاویوں سے دیکھنے اور ہرکھنے کی کوشش کرتی تھی اس کو جان بوجھ کر ختم کیا گیا ہے تا کہ نئی آنے والی نسل کچھ نیا کرنے کے بجائے تاریخ کی ان سطروں میں کھوئی رہیں جو بظاہر تو خوش نما ہیں لیکن اندرسے اتنی کھوکھلی ہیں۔

دوسرا اہم مسئلہ جو ہمارے نظام تعلیم کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے وہ جدید تعلیم سے ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ آج بھی سکولوں میں پڑھائی جانے والی کمپیوٹر کی کتابوں میں وہی فلاپی ڈسک اور ایکس پی ونڈوزنصاب کا ہیں جو کب کی معدوم ہو چکی ہیں۔ ایسے ہی دیگر سائنسی علوم کی وہ کتابیں جو ہمارے والدین نے پڑھیں تھیں ہو بہو ہمیں بھی رٹنی پڑ رہی ہیں۔ لیبارٹریوں میں طلبہ ابھی تک وہی مینڈک والا تجربہ کر رہے ہوتے ہیں جس کی کہانی ہماری امی ہمیں بچپن میں سنایا کرتی تھی۔ اگر ایسا نظامِ تعلیم ہو تو ہم کیسے دنیا کی بڑھتی ترقی اور جدید ایجادات کا مقابلے کرنے کا سوچ سکتے ہیں؟

دوسری جانب سرکاری سکولوں کا انفراسٹرکچر انتہائی بوسیدہ ہو چکا ہے۔ ٹی وی پر روزانہ کی بنیاد پر دیکھا جاسکتا ہے کہ سکولوں کی چھتیں گرئ ہوئی ہیں اور طالبعلم آسمان کے سائے میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے اپنے گاوں میں دو پرائمری سکول ہیں جہاں آج تک میں نے کسی بھی طالبعلم کو کرسی یا بینچ ہر بیٹھے نہیں دیکھا۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کو کیسا تعلیمی ماحول اور معیار دے کر جارہے ہیں ؟

اگر حکومتوں کی توجہ اس طرف مبزول کروائی جائے تو ان کا خزانہ تعلیم کے لیے ہمیشہ خالی ہوتا ہے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ سوال کرنے اور تنقیدی سوچ پیدا کرنے والی تعلیم ان کی پوسیدہ پالیسوں کا پردہ چاک کر دے گی

پاکستان دنیا کے ان چھ بدترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو اپنی تعلیم پر سب سے کم خرچ کرتے ہیں۔ آج ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے ان سے نمٹنے کے لیے ایک بہتر نظامِ تعلیم کی ضرورت ہے۔ اور یہ اسی صورت ممکن ہے اگر بجٹ کا ایک بڑا حصہ تعلیم پر خرچ کریں۔ طلبہ کو چاہیئے کہ ایک مُلک گیر تحریک چلا کر حکومت وقت کو مجبور کریں کہ اس سال کے بجٹ میں جی ڈی پی کا کم از کم پانچ فیصد تعلیم پر مختص کیا جائے تا کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کو ایک بہتر مستقبل دے سکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *