رپورٹ: عمیر علی
مورخہ 19 مئی کو لاہور میں پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ طلبہ پر رجعت پسند تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے کارندوں کے حملے اور پولیس کی جانب سے زخمی بلوچ طلبہ کی گرفتاری کے خلاف بلوچ طلبہ کا جاری دھرنا ختم ہو گیا۔
تفصیلات کے مطابق لاہور میں پنجاب یونیورسٹی میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم کو طالبات کیساتھ بیٹھا دیکھ کر رجعت پسند تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے کارندوں نے اعتراض کیا جس کے بعد طلبہ کی مداخلت سے معاملہ بات چیت کے ذریعے رفع دفع کر لیا گیا مگر شام کو جب طالب علم ہاسٹل میں اپنے جونیئرز بلوچ طلبہ کو پڑھا رہا تھا تب اسلامی جمعیت طلبہ کے کارندوں نے اس پر اور دیگر طلبہ پر حملہ کر دیا۔ جس کے بعد ہاسٹل میں تصادم شروع ہو گیا۔
بعد ازاں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارندوں نے ہاسٹل بند کرکے بلوچ طلبہ پر پتھراؤ کیا جس کے نتیجے میں متعدد بلوچ طلبہ زخمی ہوئے اور املاک کو نقصان پہنچا۔ اس واقعے کے بعد پنجاب لاء کالج میں تصادم ہوا جس کے بعد پنجاب پولیس کی جانب سے زخمی بلوچ طلبہ کو ہسپتال سے گرفتار کر لیا گیا حتی کہ اُن زخمی طلبہ کو ابتدائی طبی امداد تک فراہم نہیں ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب پولیس نے یونیورسٹی میں آپریشن کیا جس کے دوران بلوچ شناخت رکھنے والے طلبہ کو بغیر کسی جانچ پڑتال کے دھڑا دھڑ گرفتار کیا گیا۔
جس کے خلاف بعد میں بلوچ طلبہ نے پنجاب یونیورسٹی میں وی سی آفس کے باہر دھرنا دے دیا تھا۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے گرفتار ساتھی طلبہ سے ملنے نہیں دیا جا رہا تھا بعد میں جب ملنے کی اجازت دی گئی تو نہایت تذلیل آمیز رویہ روا رکھا گیا۔ دھرنے کے نتیجے میں بعض طلبہ کو رہا کردیا گیا جبکہ ابھی بھی دو طالب علم زیر حراست ہیں جبکہ بلوچ طلبہ کی جانب سے دیا گیا دھرنا ختم کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ طلبہ نے پنجاب یونیورسٹی میں بڑھتی ہوئی پولیس گردی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ پولیس طلبہ کو گرفتار کرنے کے بعد اتنا نہیں بتاتی کہ گرفتار طلبہ کس تھانے میں بند ہیں۔ طلبہ نے بتایا کہ ان واقعات میں سی ایس او کی براہ راست مداخلت رہی ہے اور وہ طلبہ کو دھمکیاں دینے میں پیش پیش رہتے ہیں اور اسلامی جمعیت طلبہ کو کھلی چھوٹ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، وہ اس رجعت پسند تنظیم کی حمایت کرتے ہیں جس کے سبب اسلامی جمعیت طلبہ کے کارندوں کی غنڈہ گردی بڑھتی جا رہی ہے۔
اس سلسلے میں دی سٹوڈنٹس ہیرلڈ سے بات کرتے ہوئے پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹیو کے مرکزی سیکرٹری جنرل حارث احمد آزاد نے کہا کہ بلوچ طلبہ پر ہونے والے تشدد کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ہونے والا تشدد چاہے وہ کسی بھی جانب سے ہو قابل مذمت ہے۔ اس تشدد کی وجہ اداروں میں جمہوری سیاست کی اجازت نہ ہونا ہے جس کی غیر موجودگی میں گروہوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے تشدد کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تمام تر ہمدردیاں بلوچ طلبہ کے ساتھ ہیں جو اپنے علاقوں میں جامعات نہ ہونے کی وجہ سے پنجاب کے جامعات میں آنے پر مجبور ہوتے ہیں مگر یہاں اُن کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے۔ پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹیو اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے بلوچ طلبہ کی مکمل حمایت کرتی ہے اور اُن کے ساتھ کھڑی رہے گی۔