جامعہ پنجاب میں مختلف طلبہ تنظیموں کا پشتون بیلٹ میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کیخلاف احتجاج

رپورٹ: نادیہ علی 

آج جامعہ پنجاب میں فیصل آڈیٹوریم کے سامنے پشتون ایجوکیشن ڈیولپمنٹ موومنٹ پیڈم کی جانب سے ہرنائی بلوچستان واقعے،اتمانزئی دھرنا، دیر اور سوات میں بدامنی اور پشتون بیلٹ میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف دوپہر ایک بجے پرامن احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔

 یونیورسٹی کے طلبہ کی ایک کثیر تعداد احتجاج کا حصہ بنی، جس میں سرائیکی کونسل ، بلوچ کونسل، پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹیو اور دیگر چھوٹی بڑی طلبہ تنظیموں کے ممبران نے حصہ لیا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں احتجاجی پوسٹرز تھام رکھے تھے اور بھرپور نعرہ بازی کے ذریعے ریاستی عناصر کی جانب سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کی پشت پناہی کی مذمت کی۔

ریاست کے گناہوں کی سزا اقلیتی اقوام کو بھگتنا پڑ رہی ہے، جبکہ ان دہشتگردوں کو بنانے والے آج بھی اسی طرح ہم پر مسلط ہیں اور تخریب کاروں سے اپنی دیرینہ رفاقت کے عوض وزیرستان اور فاٹا کے عوام کا سودا کر چکے ہیں۔

بلوچ کونسل کے صدر شیراز بلوچ نے آغاز میں تقریر کرتے ہوئے ریاستی اداروں کی طرف سے بلوچ اور پشتون اقوام پر کیے جانے والے مظالم کا حساب طلب کیا۔ انہوں نے ذمہ داران سے سوال کیا کہ آخر کب تک بلوچ اپنے پیاروں کی میتیں اٹھاتے رہیں گے؟ کیا انہیں کبھی خوشی کا کوئی لمحہ نصیب ہو گا؟  ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کی پشت پناہی کرنے والے عناصر کو شرم آنی چاہیے کہ پشتون بیلٹ کے اطراف ہزاروں نوجوان ان کرائے کے قاتلوں کے ہاتھوں اپنی زندگیوں سے محروم کیے جا چکے ہیں ۔

بلال گرمانی، سرائیکی کونسل کے چیئرمین، کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ریاست کے گناہوں کی سزا اقلیتی اقوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے، جبکہ ان دہشتگردوں کو بنانے والے آج بھی اسی طرح ہم پر مسلط ہیں اور تخریب کاروں سے اپنی دیرینہ رفاقت کے عوض وزیرستان اور فاٹا کے عوام کا سودا کر چکے ہیں۔ انہوں نے سرائیکی وسیب میں حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں اور اس سلسلے میں حکومتی اداروں کی بے حسی کی بھی پٌرزور مذمت کی۔

احتجاج میں شامل پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے صدر قیصر جاوید نے اپنی تقریر میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے کیے جانے والے ان گنت مظالم کا ذکر کیا اور ہرنائی میں ایف سی کی جانب سے پرامن ریلی پر فائرنگ کی مذمت کی جس کے نتیجے میں خالقدار بابر کی شہادت واقع ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی اس کے آخری ہونے کا کوئی امکان ہے۔ بلوچ اور پشتون اقوام عرصہ دراز سے ریاستی اداروں کی زیادتیوں کےعین نشانے پر رہی ہیں لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ آج کا نوجوان سیاسی طور پر باشعور ہو چکا ہے۔ وہ ظالم اور مظلوم کے فرق سے باخوبی آگاہ ہے۔ انہوں نے ریاستی اداروں کو للکارتے ہوئے کہا کہ ظلم اور جبر کا یہ سلسلہ اب زیادہ دیرتک نہیں چل پائے گا۔ بلوچ اور پشتون نوجوان مزید جنازے اٹھانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

ریاست نے اپنے تمام وسائل اپنے ہی لوگوں کا گلا کاٹنے اور کراۓ کی جنگیں لڑنے میں صَرف کرنے کے بجائے ان کی تعلیم اور فلاح و بہبود پر لگائے ہوتے تو آج صورتحال بہت مختلف ہوتی۔

اختتام میں احتجاج منعقد کروانے والی پنجاب یونیورسٹی کی طلبہ کونسل پشتون ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ موومنٹ کے جنرل سیکریٹری خلیل الرحمن نے شرکاء سے خطاب کیا اور ان کی جانب سے اظہار یکجہتی کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی بالادستی پر خوشی منانے والے اس وقت سے ڈریں جب یہی آگ ان کے گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ پشتون اور بلوچ خون تو ریاست کی نظر میں سستا ہے لیکن کل یہی دہشتگرد اگر پنجاب کے کسی بڑے شہر پر حملہ کرتے ہیں تو کیا تب بھی ریاستی اداروں کا یہی ردعمل ہوگا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاست نے اپنے تمام وسائل اپنے ہی لوگوں کا گلا کاٹنے اور کراۓ کی جنگیں لڑنے میں صَرف کرنے کے بجائے ان کی تعلیم اور فلاح و بہبود پر لگائے ہوتے تو آج صورتحال بہت مختلف ہوتی۔