اختر علی ( کراچی ) جامعہ کراچی میں طلباء کی جانب سے سکالر شپس کی بحالی کے لیے کیا جانے والا احتجاج مطالبات کی منظوری کے بعد ختم کر دیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق پانچ اپریل کے احتجاج کے دوران وائس چانسلر کی مسلئے کو فوراً حل کرانے کی یقین دھانی کرانے پہ دی گئی ڈیڈ لائن کے ختم ہونے پہ تمام تر اسکالرشپ ہولڈر کا میٹنگ کی گئی جس میں انتظامیہ کی طرف سے تین میں سے دو ڈیمانڈس پر عمل درآمد کرنے پہ طلبہ نے اظہار نرمی کرتے ہوئے پیر کے دن دی ہوئی احتجاجی کال واپس لے لی۔
واضح رہے کہ طلبہ کی تین ڈیمانڈس تھیں جس میں انیوئیل اسٹائپینڈ کا ریلیز کرنا، سیمسٹر فیس ایڈجسٹمنٹ کرنا اور جمع کروائی گئی فیس کو واپس کرنا شامل تھا۔ طلبہ نمایندوں کا کہنا تھا کہ اگلے لائحہ عمل کے مطابق بقیہ ایک ڈیمانڈ کے لیے اور کچھ ساتھیوں کے بینک اکاؤنٹ کے مسئلے اور اسکالرشپ پروموشن پہ طلبہ کا وفد، پیر کے دن انتظامیہ سے میٹنگ کرے گا ۔ طلبہ رہنماؤں نے تمام ساتھی طلبہ اور طلبہ تنظیموں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے احتجاجی مظاہرے میں شرکت اور اظہار یکجہتی کیا۔
اس موقع پر دی سٹوڈنٹس ہیرلڈ سے بات کرتے ہوئے طالب علم رہنما امجد حسین کا کہنا تھا کہ اتحاد ہی درحقیقت ہماری طاقت ہے۔ جب تک یے پورے مسائل حل نہیں ہونگے ہماری جدوجھد جاری رہے گی۔ تین میں سے دو مسائل حل ہو چکے ہیں باقی ایک رہتا ہے، یا تو ہمیں کسی مسئلے کو چھیڑنا نہیں چاہیئے اگر چھیڑتے ہیں تو اسکو پورا انجام تک پہنچانا ہو گا ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ طلبہ اسی طرح سے بنا تفریق ساتھ رہے تو بڑے سے بڑے مقاصد بھی جلد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
طالب علم رہنما کاجل بلوچ کا کہنا تھا کہ اگر طلباء کا اکٹھ ہو اور اپنے مسائل پہ سارے سٹوڈنٹس مل کر بات کریں اور منظم ہوں تو اس کو ہم احتجاجی مظاہرے یا کسی سوشل میڈیا کے ذریعے حل کرسکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی تک دو مطالبے ماننے گئے ہیں جب تک ہمارے تمام تر مطالبے پوری نہیں ہوتے تب تک ہماری جدوجھد جاری رہے گی ۔
طلبہ رہنما اور پروگریسیو اسٹوڈنٹس کولیکٹو کراچی کے صدر جسونت سنگھ کا کہنا تھا کہ یہ تو مطالبے مان لیے گئے ہیں مگر جب تک واقعی میں اسٹوڈنٹس نمائیندگی (اسٹوڈنٹس یونین) ہر کیمپس پر نہیں ہو گی تب تک ہمارے حقوقِ کی اسی طرح خلاف ورزی جاری رہے گی چاہے وہ اسکالرشپ کی صورت میں، تو کبھی پرائویسی پالیسی نافذ کرنا (اینٹی جنسی ہراسانی)، اور ہاسٹل، ٹرانسپورٹ کا کیوں نہ ہو تو میرے خیال ابھی وقت ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے طلبہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر سارے مسائل کے حل کے بات کریں جس کی مثال آج ہمارے سامنے ہیں۔