رپورٹ: عمیر علی
گزشتہ روز ، مورخہ 7 اپریل کو سکھر میں آئی بی اے یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنے استاد پروفیسر ڈاکٹر اجمل ساوند کے قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا۔
تفصیلات کے مطابق احتجاجی مظاہرے میں ترقی پسند طلبہ تنظیموں نے بھرپور شرکت کی۔ احتجاجی مظاہرے میں شریک طلبہ کا کہنا تھا کہ ایک استاد کا قتل نہایت شرمناک اور افسوسناک عمل ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ اس نقصان کو پورا کرنے میں دہائیاں درکار ہیں۔
دی سٹوڈنٹس ہیرلڈ سے بات کرتے ہوئے پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹیو سکھر کے ساتھی شہنشاہ حسین کا کہنا تھا کہ ریاست ان قبائلی فسادات میں باقاعدہ سہولت کار کا کردار ادا کرتی آئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کا عوام کے فلاح و بہبود سے دور تک کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے منتخب نمائندوں سے یہ کہتے ہیں کہ جلد ازجلد مرحوم پروفیسر کے قاتلوں کے خلاف نہ صرف کاروائی کی جائے بلکہ قبائلی فسادات کے خاتمے کے لیے مکمل لائحہ عمل تیار کیا جائے۔
بلوچ کونسل آئی بی اے کے رہنما حیدر بگٹی نے کہا ہے کہ جب تک قبائلی سرداروں پر قتل کے پرچے داخل کرکے انہیں انکے جرائم کی کڑی سزا نہیں دی جاتی تب تک اس ناسور سے نجات نہیں مل سکتی۔ ایک اور طالب علم کاشف قدیر نے ماضی میں ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اگر سندھ کو قبائلی جھگڑے سے ہونے والی تباہی سے نہیں بچایا گیا تو سندھی عوام ترقی کے بجائے دن بدن اندھیرے میں دھکیلے جائیں گے۔
پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹیو کی مرکزی صدر ورثہ پیرزادو نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس احتجاجی مظاہرے کی حمایت کرتی ہیں کہ استاد قوم کے معمار ہوتے ہیں ان کے ساتھ یہ سلوک طلبہ میں غم اور غصے کا باعث ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افسوس کہ ریاست نہ صرف اساتذہ اور طلبہ کے تحفظ میں ناکام رہی ہے بلکہ ان پر ہوئے مظالم میں پیش پیش رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سندھ کی حکومت سے مطالبہ کرتی ہیں کہ قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ انہیں سزا مل سکے اور ایسے عناصر پر قابو پایا جائے جو فسادات، قتل و غارتگری اور ظلم کا باعث بنتے ہیں۔