پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ پر تشدد

لاہور(عمیر علی): مؤرخہ 17 ستمبر، پنجاب یونیورسٹی، لاہور میں جاری طلبہ احتجاج پر انتظامیہ کے اہلکاروں کی جانب سے تشدد کیا گیا جس کے نتیجہ میں متعدد طلبہ زخمی ہوگئے۔

تفصیلات کے مطابق پنجاب یونیورسٹی، لاہور میں فیسوں میں اضافے، ہاسٹل، میس اور ٹرانسپورٹ کے مسائل اور انتظامیہ کی جانب سے لسانی اور مذہبی بنیادوں پر طلبہ سے امتیازی سلوک برتنے کے خلاف پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس فیڈریشن نے طلبہ احتجاج منعقد کیا تھا جو کہ بعد ازاں اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے چار دن سے دھرنے کی صورت میں جاری تھا کہ طلبہ کے گیٹ نمبر 1 پر پہنچنے پر سیکورٹی آفیسر کرنل عبید کی جانب سے طلبہ پر تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں متعدد طلبہ زخمی ہوگئے۔

دی سٹوڈنٹس ہیرلڈ سے بات کرتے ہوئے طلبہ کا کہنا تھا چار دن سے جاری احتجاج کے باوجود وی سی پنجاب یونیورسٹی طلبہ کی داد رسی کو نہیں آئے جبکہ انتظامیہ کی جانب سے تفریق برتی جا رہی ہے۔ طلبہ نے بتایا کہ سابقہ فاٹا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو ان کے مخصوص لہجے کی بنیاد پر شناخت کرکے میرٹ پر آنے کے باوجود داخلہ نہیں دیا جارہا۔ طلبہ نے بتایا کہ انتظامیہ پشتون، بلوچ، سرائیکی اور سندھی طلبہ کے ساتھ متعصب رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ طلبہ کا کہنا تھا سندھ سٹوڈنٹس کونسل، پنجاب یونیورسٹی کو لائبریری میں جگہ ہونے کے باوجود سندھی لٹریچر کی کتب رکھنے کی اجازت نہیں دی جاری ہے۔ طلبہ نے دیگر مسائل کے بارے میں نشاندھی کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی فیسوں میں دو گنا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ ہاسٹل، میس اور ٹرانسپورٹ کی بقایاجات کو بھی اسی تناسب سے بڑھا دیا گیا ہے۔

اس حوالے سے پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹیو کے سیکرٹری جنرل حارث احمد آزاد کا کہنا تھا کہ پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹیو طلبہ پر تشدد کی شدید مذمت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ایس سی احتجاج کرنے والے طلبہ اور تنظیموں سے یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے جامعات میں دور سے تعلق رکھنے والے طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں اور انہیں وہاں سہولیات نہیں ملتیں جبکہ ان کی فیسوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، ہاسٹل اور میس کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں حتی صاف پانی جیسی بنیادی ضرورت کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے حل کے لیے طلبہ پر امن احتجاج کرتے ہیں اور انتظامیہ ان پر تشدد کرنے لگتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ کے مسائل کو سنجیدگی سے لیکر ان کو حل کیا جائے۔