کشمیر کا نعرہ، آزادی

قیصر جاوید

ریاست جموں کشمیر کے تقریباً دو کروڑ انسان پچھلے ستر سالوں سے “آزادی” کے نعرے بلند کرتے اپنے مستقبل کا تعین کرنے کا جدوجہد کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آزادی سے کشمیریوں کی مراد، ہندوستان سے چھٹکارہ پا کر پاکستان میں شامل ہونا ہے اور ایک طبقہ اپنا مُستقبل بھارت کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔  جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے مُراد ایک آزاد اور خودمختار ریاست کا قیام ہے۔

بلاشبہ اپنی دھرتی کا فیصلہ کرنے کے لیے ہر ریاستی باشندے کی رائے مُقدم ہے۔ لیکن ہمیں اپنے مُستقبل کا تعین کرنے سے قبل “آزادی” کا درست مفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے جس میں دو سوال بنیادی ہیں:

پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ہم آزادی سے مُراد اپنے خطے میں اپنی حکومت چاہتے ہیں یا اس سے بڑھ کر کچھ مقصد دیکھ رہے ہیں؟

اور دوسرا سوال یہ ہے کہ جو آزادی کا تصور ہم دیکھ رہے ہیں اس سمت میں کتنا سفر ہم نے طے کیا ہے؟

جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے توہندوستان اور پاکستان کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ کیا بٹوارے کے بعد ان دونوں ممالک میں عام لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر ہوا ہے؟ کیا برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد بھی ہندوستان اور پاکستان پر مسلط مقامی حکمران طبقہ سامراج کا آلہ کار نہیں ہے؟کیا عام آدمی بھی مُلکی معاملات میں اتنا ہی فیصلے کا اختیار رکھتا ہے جتنا مُلک کا بالادست طبقے کا ہے؟ کیا تمام مذاہب کے لوگ آج مذہبی آزادی میسر ہے؟ کیا آج بھی ان ممالک میں لوگ روزگار کے لیے پریشان نہیں ہیں؟ کیا آج بھی جو وہ سب اب تک خواب ہی نہیں ہے جو بٹوارے سے قبل ہندوستان اور پاکستان بنانے والوں نے عوام کو دکھایا تھا؟

ان تمام سوالوں کا جواب اگر ہم ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ایسا مستقبل اور ریاست کا ایسا ڈھانچہ ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہو گا جوعام عوام کے لیے تو محرومیوں کا باعث ہو جبکہ حکمرانوں کے لیے اپنے خزانوں کے مُنہ ہمیشہ کھولے رکھے۔ ہمیں اپنے مستقبل کے لیے واضح طور پر اس سمت کا تعین کرنا پڑے گا جس میں اس ریاست کا بسنے والا ہر انسان نہ صرف حکومتی اختیارات میں برابر کا شریک ہو بلکہ معاشی اور مذہبی طور پر بھی آزاد اور خودمختار ہو۔ ریاست جموں کشمیر کی نہ تو مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہمیں خوشحالی کی طرف لے کر جائے گی اور نہ ہی جغرافیائی تقسیم ہماری ترقی کی ضامن ہو گی۔

جبکہ دوسرا سوال ہمارے لیے اتنا ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا ہمارے لیے آزادی کی سمت کا تعین کرنا ضروری ہے۔ اگر آج بھی ہم اپنے ماضی اور حال کا تجزیہ کریں تو ہماری آزادی کی جدوجہد مختلف مراحل سے گُزری ہے۔ ہم نے لاکھوں قربانیاں دی ہیں، ہماری ماؤں بہنوں کی عزتیں پامال ہوئج ہیں، ہمارے بزرگوں نے اپنے جوان بیٹوں کی میتوں کو اپنے ہاتھوں سے دفنایا ہے، قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بھی ہم نے پسماندگی میں زندگی گزاری ہے۔ پھر بھی ہمیں اپنی قومی آزادی کا دور دور تک کوئی سراغ نظر نہیں آ رہا ہے۔ کبھی ہندوستان ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کہ اسے اپنے اندر ضم کر لیتا ہے تو کبھی پاکستان جموں کشمیر کو اپنے سرکاری نقشے کا حصہ بنا لیتا ہے۔ کیا ریاست جموں کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہماری اُمنگوں کے بجائے ہندوستان اور پاکستان کی آپس کی لڑائی کرے گی؟ کیا اس کو صرف اپنی اجارہ داری اور توسیع پسندانہ عزائم کی نذر کیا جائے گا؟

اس بات کا سرا اگر ہم پکڑنے کی کوشش کریں تو ہمیں یہ ادراک ہوتا ہے کہ جب تک اس معاملے میں جو اصل فریق ہیں یعنی کے جموں کشمیر کے حقیقی نمائندگان، وہ اس معاملے میں شریک نہیں ہوں گے تو یہ معاملہ ایسے ہی دو مُلکوں کی ذاتی لڑائیوں کی نذر ہوتا رہے گا۔ ہمیں نہ صرف ان دو ملکوں کے ساتھ جامع مذاکرات کرنے کی خود ضرورت ہے بلکہ بین الاقومی دنیا میں بھی اپنا پیغام خود لے جانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنا رویہ ان دو مُلکوں کولے کر بھی بدلنا پڑے گا۔ ہمیں اپنی آزادی کی جدوجہد خود کرنا پڑے گی اور یہ بھی واضح کرنا پڑے گا کہ نہ تو ہم ان دو ملکوں کی جنگ لڑیں گے اور نہ ہی اپنی سرزمیں پر کسی کو ایسا کرنے دیں گے۔ ریاست جموں کشمیر کو خارجہ پالیسی کا قلمدان اب اپنے ہاتھ میں رکھنا پڑے گا تا کہ جو جموں کشمیر کے باسی سوچ رہے ہیں اس کا اظہار کرنے میں ہمیں کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

جہاں تک عالمی دنیا کا تعلق ہے اس کو بھی ریاست جموں کشمیر کو ایک زمینی قطعہ سمجھنے کے بجائے اس میں بسنے والے دو کروڑ انسانوں کو خاطر میں لانا پڑے گا۔ ہم اب دنیا سے بھی کچھ عملی اقدامات چاہتے ہیں کیونکہ پچھلے ستر سالوں میں مختلف ممالک نے سفارتی سطح پر صرف بیان بازی کا ہی سہارا لیا ہے، اب انسانی بنیادوں پر اس معاملے پر جامع حکمت عملی بنا کر ریاست جموں کشمیر کے مسئلے کو حل کروانے کی طرف جانا پڑے گا۔

سچے جذبوں کی قسم چناروں کا دیس بھی آزادی کا سورج دیکھے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *